Maktaba Wahhabi

618 - 871
اس مسئلے پر ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے،جس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔[1] کیا بسملہ ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے؟: اس جگہ اہلِ اصول نے بسملہ میں اس کے ہر سورت یا صرف سورۃ الفاتحہ کی ایک مستقل آیت ہونے میں یا اس کے دو سورتوں کے درمیان صرف فصل ہونے میں یا اس کے سرے سے قرآن کی آیت ہی نہ ہونے میں قراء کا اختلاف ذکر کیا ہے اور اس پر لمبی چوڑی بحث کی ہے۔حتیٰ کہ بعض مبالغہ کرنے والوں نے اس مسئلے کو اعتقادی مسائل میں شمار کرتے ہوئے اس کو اصولِ دین کے مسائل میں شامل کیا ہے۔ اس مسئلے میں حق تو یہ ہے کہ یہ ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے،کیونکہ رسمِ مصحف میں موجود ہے اور یہ امر کسی شَے کی قرآنیت کو ثابت کرنے کے لیے رکنِ اعظم ہے،پھر مصحف میں سورتوں کے آغاز میں اس کے درج ہونے پر اہلِ علم کا اجماع ہے،قراء اور غیر قراء میں سے جو اس کے قرآن ہونے کو ثابت نہیں کرتے،وہ بھی اس (رکن) میں اختلاف نہیں کرتے۔اس اجماع کے ساتھ رکن ثانی بھی حاصل ہوگیا اور وہ ہے اس (بسملہ) کا منقول ہونا،کیونکہ وہ تمام جماعتوں کے نزدیک اجماعاً منقول ہے اور رکنِ ثالث اس کا وجہ اعرابی معنی عربی کے موافق ہونا ظاہر ہے۔ اس بحث سے آپ کو معلوم ہو چکا ہو گا کہ رسمِ مصحف میں بسملہ کا وجود تسلیم کرتے ہوئے اس کے قرآن ہونے کی نفی کرنا محض ایک غیر مقبول دعوی ہے۔اسی طرح بسملہ کا رسمِ مصحف میں ہر سورت کے شروع میں وجود تسلیم کر کے اس کے سورۃ الفاتحہ کی ایک آیت ہونے کا دعوی ایسی دلیلِ مقبول سے خالی دعویٰ ہے،جو دلیل بن سکتی ہو۔ جہاں تک بسملہ کی قراء ت اور عدمِ قراء ت،مطلقاً اس کو مخفی پڑھنے یا سری نماز میں مخفی اور جہری نماز میں جہری پڑھنے کے اختلاف کا تعلق ہے تو یہ محلِ نزاع سے خارج ہے۔اس سلسلے میں احادیث بہت زیادہ مختلف ہیں۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے ایک مستقل رسالے میں اس پر تفصیلی کلام کیا ہے۔[2] اور اگر اس مسئلے میں ان کی کتاب’’نیل الأوطار شرح منتقی الأخبار‘‘ کی طرف آپ رجوع کر لیں تو آپ کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہے گی۔[3]
Flag Counter