Maktaba Wahhabi

281 - 871
4۔یہ کہ منسوخ وقت کے ساتھ مقیدنہ ہو،اگر مقید ہو تو اس وقت کا گزر جانا نسخ نہیں ہے۔ 5۔وہ ناسخ قوت میں منسوخ کے برابر،بلکہ اس سے زیادہ قوی ہو،کیونکہ ضعف کی صورت میں وہ قوی کا ازالہ نہیں کرسکتا۔یہ عقل کا فیصلہ ہے اور اس پر اجماع دلالت کرتاہے،کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نصِ قرآن کو خبرِ واحد سے منسوخ نہیں کیا ہے۔ 6۔منسوخ کا مقتضا ناسخ کے مقتضا کا غیر ہو،تاکہ’’بدا‘‘[1] لازم نہ آئے اور یہ شرط نہیں ہے کہ ناسخ کا لفظ کسی ایسی چیز کو شامل ہو،جسے منسوخ شامل ہو،یعنی تکرار وبقا کے ساتھ۔ 7۔وہ منسوخ جائز النسخ ہو،لہٰذا اصل توحید پر نسخ داخل نہیں ہوگا،کیونکہ اﷲ سبحانہٗ اپنے اسما و صفات کے ساتھ’’لم یزل ولایزال‘‘ ہے [ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا] اور ایسے ہی ہر اس چیز پر نسخ جائز نہیں ہے،جس کی تابید و توقیت نص سے ثابت ہو۔اسی سے یہ معلوم ہوا کہ اخبار میں نسخ نہیں ہے،کیونکہ اس کا مخبر صادق کی خبر کے خلاف ہونا غیر متصور ہے۔ 4۔منسوخ پر عمل پیرا ہونے کے بعد نسخ کا جواز: منسوخ کا اعتقاد رکھنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد نسخ بلا خلاف جائز ہے،چاہے سب اس پر عمل پیرا ہوئے ہوں،جیسے استقبالِ بیت المقدس یا ان میں سے کچھ،جیسے مناجاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت فرض صدقہ۔نیز اس فعل کے تمکن کے بعد جس سے حکم تعلق رکھتا ہو،اس کی تکلیف کا علم حاصل ہونے کے بعد نسخ کے جوا زمیں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔بایں صورت کہ اس وقت معین سے،جس نے فعل کی گنجایش رکھی ہے،گزر جائے،کرخی کے برخلاف۔ایسے ہی اس صورت میں بھی اہلِ علم کے درمیان نسخ کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مامور بہٰ کا وقت داخل ہوا اور اس کے فعل سے پہلے ہی نسخ ہوگیا۔اگر کوئی اختلاف ہے تو وہ دخولِ وقت سے پہلے نسخ کے بارے میں ہے۔ 5۔نسخ کا بدل: نسخ کے لیے اس کا بدل شرط نہیں ہے اور یہی جمہور کا مذہب ہے۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:’’ہو الحق الذي لا سترۃ بہ‘‘[2] [یہی موقف درست ہے،جس میں کوئی آڑ اور رکاوٹ
Flag Counter