Maktaba Wahhabi

361 - 871
دسویں آیت: ﴿فَذَرْھُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْن﴾ [الأنعام: ۱۱۲] [پس چھوڑ انھیں اور جو وہ جھوٹ گھڑتے ہیں ] کہتے ہیں کہ یہ آیت،آیتِ سیف سے منسوخ ہے۔ گیارھویں آیت: ﴿وَ لَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہ﴾ [الأنعام: ۱۲۱] [اور اس میں سے مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا] کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت: ﴿اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ﴾ [المائدۃ: ۵] [آج تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور ان لوگوں کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے جنھیں کتاب دی گئی] سے منسوخ ہے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اسی طرف گئے ہیں،لیکن در حقیقت یہ استثنا کے ذریعے تخصیص کے باب سے ہے،نسخ کے باب سے نہیں۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے’’فتح القدیر‘‘ میں لکھا ہے کہ اہلِ علم نے اس آیت میں اختلاف کیا ہے۔ابن عمر رضی اللہ عنہما،نافع،شعبی اور ابن سیرین رحمہ اللہ علیہم کا مذہب اور ایک روایت میں امام مالک،احمد بن حنبل،ابو ثور اور داود ظاہری رحمہ اللہ علیہم کا مذہب یہ ہے کہ جس ذبیحے پر اﷲ کانام مذکور نہ ہو،خواہ عمداً ہو یا بھول کر اس آیت کے مطابق وہ حرام ہے اور اس استدلال کا موید اﷲ کا ارشاد: ﴿وَ اِنَّہٗ لَفِسْقٌ﴾ ہے۔احادیثِ صحیحہ میں تسمیہ کا حکم شکار و غیرشکار میں ثابت ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ تسمیہ مستحب ہے،واجب نہیں۔یہ سیدنا ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اور امام عطا بن رباح رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ نے آیت کا معنی غیر اﷲ کے لیے ذبیحہ لیا ہے اور یہ بغیر مخصص کے آیت کی تخصیص ہے۔ مراسیل ابو داود میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کا ذبیحہ جائز ہے،اس پر اﷲکا نام ذکر کیا جائے یا نہ کیا جائے۔[1] یہ روایت آیت کی تخصیص کے قابل نہیں ہوسکتی۔ہاں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کہ انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ایک قوم گوشت لاتی ہے اور ہم نہیں جانتے کہ اس پر خدا کا نام ذکر کیا گیا ہے یا نہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اﷲ کا نام لو اور کھاؤ۔[2] یہ حدیث اس
Flag Counter