Maktaba Wahhabi

355 - 871
روکو،یہاں تک کہ جب ہوس کی اطاعت اور ہواے نفس کی پیروی اور دنیا کی برتری اور ہر شخص کی خود رائی کو دیکھو تو اپنے آپ کو دیکھو اور عوام کو چھوڑدو،کیونکہ اس زمانے کے بعد ایسا زمانہ ہے کہ اس میں صبر ہاتھ میں انگارہ لینے کے برابر ہوگا اور اس میں جو عمل کرے گا،اس کے لیے پچاس آدمیوں کے برابر ثواب ہوگا،جو تم میں سے کوئی کرتا ہو۔ ترمذی او ر حاکم رحمہما اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے۔[1]ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آیا ہے کہ’ ’تم پر کفار میں سے کسی کے گناہ گار ہونے کا کوئی ضرر نہیں ہوگا جب تم ہدایت پر رہوگے۔‘‘[2] سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آخری زمانہ ہوگا۔اسے عبدالرزاق اور ابن جریر رحمہما اللہ نے روایت کیا ہے۔[3] انتھیٰ۔ اس صورت میں مذکورہ آیت منسوخ نہیں،بلکہ خاص ہے اور یہی درست ہے۔ ساتویں آیت: ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَھَادَۃُ بَیْنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِکُم﴾ [المائدۃ: ۱۰۶] [اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھاری آپس کی شہادت،جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے،وصیت کے وقت دو عدل والے آدمی ہوں گے،جو تم میں سے ہوں،یا دو اور تمھارے غیر سے ہوں ] کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت: ﴿وَ اَشْھِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ مِّنْکُمْ﴾ [الطلاق: ۲] [دو صاحبِ عدل آدمی گواہ بنا لو] سے منسوخ ہے،لہٰذا مسلم پر بالاجماع کافر کی شہادت کی پذیرائی نہیں ہوگی۔آیت مذکورہ بالا میں کافر کی شہادت کا ذکر نہیں ہے،کیونکہ اس کا نزول مسلمان کے حق میں ہوا ہے کہ سفر میں موت کے وقت دو کافروں یا دو مسلمانوں کے روبرو وصیت کرے۔ ’’الفوزالکبیر‘‘ میں فرمایا ہے کہ احمد رحمہ اللہ نے اس آیت کے ظاہر کے موافق کہا ہے اوران کے سوا دوسروں کے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ تمھارے اقربا کے سوا یعنی عام مسلمانوں میں سے ہوں۔[4] انتھیٰ۔
Flag Counter