Maktaba Wahhabi

293 - 871
اٹھانے کو متضمن نہ ہو،کیونکہ اس صورت میں ناسخ ہوگی۔ابن برہان رحمہ اللہ نے اسے شافعیہ سے حکایت کیا اور کہا ہے کہ درست یہی ہے اور اسی کو آمدی،ابن الحاجب،فخر رازی،بیضاوی اور ابو الحسین مصری رحمہ اللہ نے مختار قرار دیاہے اور یہی باقلانی اور امام الحرمین جوینی رحمہما اللہ کے کلام سے ظاہر ہے۔صفی ہندی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ’’إنّہ أجود الطرق وأحسنھا‘‘ [بلاشبہہ یہ سب سے عمدہ اور بہترین طریق ہے] لیکن بعض محققین نے فرمایا ہے کہ یہ تفصیل بے فائدہ ہے اور محلِ نزاع میں نہیں ہے،کیونکہ اس میں شک نہیں کہ سب کے نزدیک جو شرعی حکم کو اٹھا دے،حقیقت میں نسخ ہے اور یہاں کلام اس میں نہیں ہے کہ حکم کا اٹھنا نسخ ہے کہ بیان ہے اور جو ایسا نہ ہو،وہ نسخ نہیں ہے،کیونکہ قائل نے اس جگہ اس کے بارے میں تفصیل کی ہے،جو حکمِ شرعی کو اٹھا دیتا ہے اور اس کے بارے میں بیان کیا ہے جو کسی حکمِ شرعی کو نہیں اٹھاتا۔تو گویا وہ کہتا ہے کہ اگر زیادت نسخ ہے تو نسخ ہے اور نہیں تو نہیں اور یہ لاحاصل ہے۔بلکہ نزاع اس میں ہے کہ آیا حکم شرعی کو زائل کردیا ہے تو نسخ ہوگا یا نہیں زائل کیا تو نسخ نہیں ہوگا۔تو اگر خصوصیت سے اس کے حکم شرعی کے زائل کرنے پر اتفاق کرے تو ناسخ ہونے پر اتفاق ہوجائے گا اور اگر خصوصیت سے اس کے اس کو زائل نہ کرنے پر اتفاق کرلیں تو اس کے ناسخ نہ ہونے پر اتفاق ہوجائے گا،بلکہ نزاع در اصل اس میں ہے کہ زیادتی ازالہ کرتی ہے یا نہیں ؟ انتھی۔ زرکشی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس مسئلے کا فائدہ یہ ہے کہ جس کا نسخ کے باب سے ہونا ثابت ہو اور مقطوع بہ ہو تو وہ قاطع کی وجہ ہی سے منسوخ ہوگا،جیسے تغریب چونکہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نسخ ہے،اس لیے انھوں نے اس کی نفی کی ہے،کیونکہ اس میں قرآن کا خبر واحد سے نسخ ہے اور جمہور کے نزدیک نسخ نہیں،اس لیے انھوں نے اس کو قبول کیا ہے،اس لیے کہ یہاں منافات و معارضہ نہیں ہے۔یہیں سے حنفیہ نے بہت سی احادیث صحیحہ کو ردکیا ہے،کیونکہ وہ قرآن پر زیادتی کی مقتضی ہیں اور زیادتی نسخ ہے اور قرآن کا نسخ خبر واحد سے جائز نہیں،جیسے ہر نماز کی رکعت میں امام ہو یا مقتدی سورۃالفاتحہ کے تعیین کی احادیث کا رد،گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلے کی حدیث،آزاد کی جانے والی لونڈی یا غلام کے ایمان اور وضو میں اشتراطِ نیت کی احادیث کا رد۔انتھی۔
Flag Counter