Maktaba Wahhabi

292 - 871
سے نہیں ہے،جیسے وجوبِ زکات کی زیادتی نماز پر،جو ناسخ نہیں ہے،کیونکہ کسی عبادت کی زیادتی عبادات پر باتفاق اہلِ علم ان عبادات کا نسخ نہیں ہوتی اور اس جیسی صورت میں عدمِ منافات کی وجہ سے اہلِ اسلام میں سے کوئی ایک بھی اس کا مخالف نہیں ہے۔یا اول (اپنے سے پہلے) کی جنس سے ہے،جیسے پانچوں نمازوں پر نماز کی زیادتی اور یہ بھی جمہور علما کے نزدیک نسخ نہیں ہے۔اگر زائد مستقل بنفسہٖ نہیں ہے،جیسے رکعتوں پر رکعت کی زیادتی اور جلد (کوڑے مارنا) پر تغریب (جلا وطن کرنا) کی زیادتی اور ایمان کے ساتھ رقبہ (غلام یا لونڈی) کے وصف کی زیادتی تو اس میں سات اقوال پر اختلاف ہے: 1۔یہ کسی صورت میں نسخ نہیں ہے اور شافعیہ و مالکیہ اور حنابلہ یہی مانتے ہیں۔ 2۔یہ نسخ ہے اور یہ حنفیہ کی بات ہے،چاہے سبب میں ہو یاحکم میں۔ 3۔اگر مزید علیہ اپنے مضمون سے خود اس زیادتی کی نفی کر رہا ہو تو زیادتی اس کی ناسخ ہوگی،جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد: ((فِيْ سَائِمَۃِ الْغَنَمِ الزَّکَاۃُ)) [1] [چرنے والی بکریوں میں زکات ہے] کیونکہ یہ معلوفہ [جس کو خود چارہ ڈالا جائے] پر زکات کی نفی کا فائدہ دیتا ہے اور اگرنہ کرے تو نسخ بھی نہیں۔ 4۔اگر زیادتی مزید علیہ کو شرعی طور پر تبدیل کر کے رکھ دے،بایں طور کہ اگر اس کو اس زیادتی کے بعد اس کے اوّل طریق پر بجالائے تو معتد بہٖ نہ ہو،جیسے ایک رکعت کی زیادتی تو نسخ ہے اور اگر تبدیل نہ ہو اور مزید علیہ (جس پر اضافہ ہو رہا ہے) کا کرنا بغیر زیادتی کے صحیح ہو تو نسخ نہیں ہے۔ 5۔اگر مزیدعلیہ سے متصل ہو تو ناسخ ہے اور اس سے منفصل ہو تو ناسخ نہیں ہے۔ 6۔اگر یہ زیادتی مزید علیہ کی تغییر مستقبل میں کرتی ہو تو ناسخ ہے،ورنہ نہیں۔اسے ابن فورک رحمہ اللہ نے اصحاب ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے حکایت کیا ہے۔ 7۔اگر زیادتی حکم عقلی کو اٹھاتی ہو یا کسی ایسی چیز کو اٹھاتی ہو،جو اصل کے اعتبار سے ثابت ہے،جیسے براء ت ذمہ تو ناسخ نہیں ہے،کیونکہ ہم اس کے معتقد نہیں ہیں کہ عقل موجبِ حکم ہے اور جو اس کا معتقد ہے،وہ اعتقاد نہیں رکھتا کہ اس کا اٹھانا نسخ ہے،جب تک کہ وہ حکم شرعی کے
Flag Counter