Maktaba Wahhabi

505 - 534
’’لوگو! صوبوں کے لوگوں، چشموں پر رہنے والوں اور اہل مدینہ کے غلاموں میں سے فسادی کمینے جمع ہوئے۔ ان فسادیوں نے ابھی کل اس مقتول (عثمان رضی اللہ عنہ ) پر چال بازی، کم سنوں کو عہدہ دینے اور چراگاہوں کو خاص کر لینے کا اتہام لگایا حالاں کہ ایسی عمروالوں کو پہلے عہدے دیے جا چکے تھے اور چراگاہوں کو خاص کیا جا چکا تھا، اور یہی مناسب تھا چنانچہ آپ نے سابقین کی اتباع کی اور ان لوگوں کو چراگاہوں سے ان کی اصلاح کی خاطر روکا اور جب ان کے پاس کوئی حجت وعذر باقی نہ رہا تو یہ ہنگامہ پر اتر آئے اور عدوان و سرکشی میں جلدی کی اور ان کے قول و فعل میں تضاد ہوا، خون حرام کو بہایا، بلد حرام کی حرمت پامال کی، محترم مال کو لوٹ لیا اور ماہ حرام کی حرمت پامال کی۔ اللہ کی قسم عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک انگلی کا باقی رہنا اس سے بہتر ہے کہ زمین ان جیسے لوگوں کو اپنے اندر سمولے، لہٰذا تم ان کے خلاف متحد ہو کر نجات طلب کرو تاکہ دوسرے ڈریں اور بعد والوں کی جمعیت منتشر ہو۔ اللہ کی قسم جو ظلم انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ پر ڈھایا ہے اگر یہ عام گناہ ہوتا تو اس سے صفائی ممکن تھی جس طرح سونا میل کچیل سے صاف ہو جاتا ہے یا کپڑا گندگی سے صاف ہو جاتا ہے، اگر اس کو یہ دھو لیتے جس طرح کپڑا پانی سے دھو لیا جاتا ہے۔[1] مذکورہ معتبر روایات کی روشنی میں ام المومنین عائشہ اور امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کے مابین تعلقات کی جو بہترین تصویر ہمارے سامنے آتی ہے اس کے بالکل برعکس طبری وغیرہ میں ایسی دوسری روایات موجود ہیں جو دونوں کے مابین تعلقات کی بالکل مختلف تصویر پیش کرتی ہیں اور سبائیوں کی چال بازیوں اور کھیل کو سمجھتے ہوئے عثمان رضی اللہ عنہ اور حرمات الٰہی کے دفاع میں جو بلند و حسین اور جذبہ و شعور سے پر کردار ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پیش کیا اس کو مسخ کرتی ہیں۔[2] عقد الفرید، اغانی، تاریخ یعقوبی، تاریخ مسعودی اور انساب اشراف میں جو روایات وارد ہیں اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی سیاسی کردار کے سلسلہ میں جو استدلالات پیش کیے گئے ہیں وہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سیاسی موقف کے خلاف ہیں اور وہ سب ناقابل اعتماد ہیں کیوں کہ صحیح روایات کے خلاف ہیں اور ان کی بنیاد واہی اور کمزور روایات پر ہے۔[3] ان میں سے اکثر روایات بغیر سند کی ہیں اور جو باسند ہیں ان کی سندیں مجروح ہیں، ان سے استدلال نہیں کیا جا سکتا، یہ ناقابل حجت ہیں اور جب ان کا مقارنہ دوسری صحیح اور حقیقت سے قریب ترروایات سے کیا جائے تو ان کا متن باطل قرار پاتا ہے۔[4]
Flag Counter