Maktaba Wahhabi

471 - 534
ایک ہاتھ کو میرا ہاتھ قرار نہیں دیا کہ یہ میرا ہاتھ ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے، اور پھر میری طرف سے بیعت کی؟ تو لوگوں نے اس کی بھی شہادت دی۔ پھر فرمایا: میں ان حضرات کو اللہ کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا: جو اس گھر کو مسجد میں شامل کر کے اس کو وسیع کر دے اللہ اس کے عوض اس کو جنت میں گھر دے گا تو میں نے اس گھر کو اپنے مال سے خرید کر مسجد کی توسیع کر دی۔ لوگوں نے اس کی بھی شہادت دی۔ پھر فرمایا: میں ان حضرات کو اللہ کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، کیا بئر رومہ ایک یہودی کی ملکیت نہ تھا، جو اس کا پانی بیچتا تھا؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو اس کنویں کو خرید کر اس کا پانی ہر راہ چلنے والے کے لیے عام کر دے؟ تو میں نے اپنے مال سے اس کو خرید کر اس کو عام کر دیا؟ لوگوں نے اس کی بھی شہادت دی۔[1] ابو ثور فہمی سے روایت ہے کہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اور ان کے پاس رہا، پھر وہاں سے نکلا تو دیکھا مصری لوٹ رہے ہیں، پھر میں عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس واپس گیا اور ان کو اس کی خبر دی۔ آپ نے دریافت کیا: تم نے ان لوگوں کو کس حالت میں دیکھا؟ میں نے عرض کیا: میں نے ان کے چہروں میں برائی اور بدنیتی محسوس کیا، اور ابن عدیس بلوائیوں کا سرغنہ ہے، پھر ابن عدیس منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھا، اور خطبہ دیا اور لوگوں کو جمعہ کی نماز پڑھائی، اور خطبہ کے دوران عثمان رضی اللہ عنہ کی تنقیص و گستاخی کی، پھر میں عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس واپس گیا، اور جو کچھ اس نے خطبہ میں کہا تھا اس سے مطلع کیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم ابن عدیس نے جھوٹ کہا اگر اس نے ایسی باتیں نہ کی ہوتیں تو میں بیان نہ کرتا۔ میں اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھا فرد ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی میری زوجیت میں دی، پھر جب اس کا انتقال ہو گیا تو دوسری بیٹی میری زوجیت میں دے دی۔ میں نے نہ تو جاہلیت میں اور نہ اسلام میں کبھی زنا اور چوری کا ارتکاب کیا، اور جب سے اسلام قبول کیا ہے نہ کبھی گانا گایا، نہ اس کی تمنا و خواہش کی، اور جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ہے اپنے ہاتھ سے کبھی اپنی شرمگاہ کو نہیں چھوا۔ اور جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتا رہا ہوں الا یہ کہ کسی جمعہ کو غلام نہ ملے، تو دوسرے جمعہ کو اس کے عوض دو غلام آزاد کرتا ہوں۔[2] جب عثمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ باغی آپ کے قتل پر مصر ہیں تو آپ نے انہیں اس سے روکا، اور اس فعل بد کے انجام سے خبردار کیا، اور روشن دان سے ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: لوگو! مجھے قتل نہ کرو، مجھے رضا مند کر لو، اللہ کی قسم اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو کبھی ایک ساتھ مل کر قتال نہ کر سکو گے، اور نہ کبھی دشمن سے جہاد کر سکو گے
Flag Counter