Maktaba Wahhabi

455 - 534
٭ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ میں نے حکم بن العاص کو مدینہ واپس بلا لیا ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طائف کی طرف جلا وطن کر دیا تھا۔ لیکن حکم بن العاص مکی ہیں، وہ مدینہ کے رہنے والے نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مکہ سے طائف روانہ کیا تھا اور آپ نے ہی جب ان سے خوش ہو گئے تو مکہ واپس بلا لیا تھا کیا بات ایسی نہیں ہے؟ صحابہ نے کہا: ہاں ضرور بات ایسی ہی ہے۔ ٭ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ میں نے نوخیز عمروالوں کو عامل اور کم سن نوجوانوں کو والی مقرر کیا ہے، میں نے صرف فاضل باصلاحیت اور پسندیدہ لوگوں کو ہی والی مقرر کیا ہے، یہ لوگ انہی کی رعایا میں سے ہیں، ان سے ان سے متعلق پوچھ لو، یاد رہے کہ مجھ سے پہلے والوں نے ان سے نوخیز اور کم سن لوگوں کو ولایت سونپی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زیدکو ولایت بخشی حالاں کہ وہ ان سے کم سن تھے جن کو میں نے والی مقرر کیا ہے۔ لوگوں نے اس سے سخت بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تھی جو لوگوں نے مجھ سے کہی ہے، کیا بات ایسی نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں ضرور بات ایسی ہی ہے، یقینا یہ لوگ لوگوں پر ایسا عیب لگاتے ہیں جس کی تفسیر و توضیح نہیں کرتے۔ ٭ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب میں نے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مال فے دیا تو اس کو مال غنیمت کے خمس کا خمس دیا جس کی مقدار ایک لاکھ تھی، یہ اس وقت ہوا جب افریقہ (تونس) پر اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی، یہ اس کے جہاد کا بدلہ تھا۔ میں نے اس سے کہہ رکھا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ تیرے ہاتھوں پر افریقہ فتح فرمائے گا تو میں اس سے حاصل ہونے والے مال غنیمت کے خمس کا خمس تجھ کو دوں گا، اور مجھ سے قبل ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ایسا کر چکے ہیں، اس کے باوجود جب مجاہدین کے لشکر نے مجھ سے کہا کہ ہم اس کو ناپسند کرتے ہیں کہ آپ ان کو خمس کا خمس دیں حالاں کہ انہیں اعتراض اور انکار کا کوئی حق نہیں، تو میں نے عبداللہ بن سعد سے اس کو واپس لے لیا اور اسے مجاہدین کے لشکر پر تقسیم کر دیا، اس میں سے ابن سعد نے کچھ بھی نہیں لیا، کیا بات ایسی نہیں ہے؟ صحابہ نے کہا: ہاں ضرور بات ایسی ہی ہے۔ ٭ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ میں اپنے گھر والوں کو ترجیح دیتا ہوں اور انہیں عطا کرتا ہوں۔ پس واضح ہو کہ ان کی محبت مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کرتی کہ میں دوسروں پر ظلم و زیادتی پر اتر آؤں، بلکہ ان پر حقوق عائد کرتا ہوں، اور ان سے حقوق وصول کرتا ہوں، اور رہا معاملہ ان کو عطا کرنے کا تو میں انہیں اپنے مال خاص سے عطا کرتا ہوں، مسلمانوں کے مال میں سے نہیں دیتا ہوں، میں تو مسلمانوں کا مال اپنی ذات کے لیے بھی حلال نہیں سمجھتا اور نہ کسی دوسرے کے لیے۔ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اپنے مال خاص سے بڑے بڑے قیمتی و مرغوب عطیات دیتا رہا ہوں، جب کہ اس وقت مجھے مال کی طمع و لالچ تھی، کیا آج جب کہ میری عمر دراز ہو چکی ہے، اور عمر کی آخری منزل طے کر رہا ہوں اور اپنا سارا مال و متاع
Flag Counter