Maktaba Wahhabi

43 - 534
اساس پر لوگ مرعوب ہوتے تھے۔ اس طرح عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی قوم میں انتہائی بلند مقام ملا اور لوگوں کی بے حد محبت حاصل ہوئی۔ لوگوں کو عثمان رضی اللہ عنہ سے آپ کے صفات حمیدہ کی وجہ سے جو محبت تھی اس سلسلہ میں دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ آپ کے دور میں عربی خواتین اپنے بچوں کو لوریاں سناتے ہوئے کہتی تھیں: احبک والرحمن حب قریش لعثمان [1] ’’رحمن کی قسم میں تجھ سے اس قدر محبت کرتی ہوں جیسے قریش کے لوگ عثمان سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ جس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اسلام کی دعوت پیش کی اس وقت آپ کی عمر چونتیس (۳۴) سال تھی۔ اس دعوت پر آپ نے کوئی لیت و لعل نہ کیا بلکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دعوت پر فوراً لبیک کہا اور سابقین اولین کی سنہری فہرست میں داخل ہو گئے۔ چنانچہ ابو اسحاق کا بیان ہے: ابو بکر، علی اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم کے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔[2] اس طرح مردوں میں چوتھے نمبر پر اسلام قبول کرنے والے آپ تھے۔ شاید یہ سبقت اس واقعہ کا نتیجہ تھی جو شام سے لوٹتے ہوئے آپ کے ساتھ پیش آیا تھا، چنانچہ جس وقت آپ اور طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا، قرآن کی تلاوت فرمائی، اسلامی حقوق سے آگاہ کیا اور اللہ کے انعام کا ان سے وعدہ کیا تو دونوں فوراً ایمان لے آئے اور آپ کی تصدیق کی۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ابھی تازہ تازہ شام سے آیا ہوں، جس وقت ہم معان اور زرقاء کے درمیان تھے نیند کی سی کیفیت تھی اتنے میں ایک منادی نے نداء دی: اے سونے والو! اٹھو! احمد مکہ میں نمودار ہو چکے ہیں۔ پھر ہم جب مکہ پہنچے تو آپ سے متعلق ہم نے سنا۔ [3] بلاشبہ یہ واقعہ انسان کے اندر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انسان جس وقت اپنے سامنے اس کا مشاہدہ کرے گا اس کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ کون ہو گا جو اس نبی کی دعوت قبول کرنے میں تردد کرے جس سے متعلق اپنے شہر پہنچنے سے قبل سنے، اور جب پہنچے تو حقائق اس کے سامنے ہوں اور جو کچھ سنا تھا اس کی تصدیق کر رہے ہوں؟ انسان کتنا ہی بڑا دشمن کیوں نہ ہو ایسی صورت میں حق کو قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ جس قدر بھی مخالفت کا اظہار کرے لیکن اس کا ضمیر برابر اس کے سینے میں اصرار کرتا رہے گا یہاں تک کہ ایمان لے آئے یا اسی حالت میں مر جائے اور ضمیر سرزنش اور ملامت سے نجات پائے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام میں جلدی کرنا وقتی جذبے یا حماقت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ یقین محکم اور تصدیق
Flag Counter