Maktaba Wahhabi

404 - 534
کوئی بھی مرتد جہاد میں شرکت نہ کر سکا۔[1] امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں کسی مرتد سے جنگوں میں تعاون نہیں لیا یہاں تک کہ وفات پا گئے۔ [2] اسی لیے بعض وہ حضرات جو ارتداد کا شکار ہوئے اور پھر دوبارہ اسلام میں داخل ہوئے اور اچھے مسلمان بنے لیکن پھر بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سامنے آنے سے شرماتے تھے، چنانچہ طلیحہ بن خویلد مکہ عمرہ کرنے جاتے لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرنے کی جرأت نہ کرتے یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ وفات پا گئے۔[3] سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اس سیاست میں تھوڑی ڈھیل دی گئی چنانچہ شام و عراق کو زیر کرنے کے لیے انہیں استعمال کیا جانے لگا۔[4] چنانچہ قادسیہ کی جنگ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے لشکر میں قیس بن مکشوح مرادی اور عمرو بن معدیکرب شریک تھے، وہ لوگوں کو ہمت دلاتے اور ان کے جذبات کو برانگیختہ کرتے تھے۔ اور یہ عمر رضی اللہ عنہ کی اجازت کے بعد ہوا تھا۔[5] ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سیاست میں یہ تجاوز ڈر اور احتیاط کے ساتھ تھا، اس کے لیے متعین ضوابط و شروط تھے، چنانچہ ایسے حضرات سو سپاہیوں کے ذمہ دار نہیں بنائے جا سکتے تھے، اس لیے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے قیس بن مکشوح مرادی کو صرف ستر سپاہی سونپے تھے، جوہر یر کی رات عجم پر حملہ آور ہوئے۔[6] سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں ان شرائط و قیود کو ختم کر دیا جو آپ کے پیشرو دونوں خلفاء نے مرتدین کے سلسلہ میں عائد کی تھیں۔ اور آپ نے یہ سمجھا کہ ارتداد پر ایک عرصہ گزر جانے کے بعد حالات نے ان پرانے تصورات کو ختم کر دیا ہو گا اور ان کے نفوس کی تطہیر ہو چکی ہو گی اس لیے آپ نے اجتہاد کر کے ان حضرات کو استعمال کیا تاکہ اس طرح ان کی اصلاح ہو جائے، لیکن ان کی اصلاح نہ ہو سکی بلکہ فساد ہی میں اضافہ ہوا۔ بقول شاعر: و کنت و عمرا کالمسمن کلبہ فتخدشہ انیابہ و اظافرہ [7] ’’زندگی کی قسم تو اس شخص کی طرح ہے جو اپنے کتے کو کھلا کھلا کر موٹا کرتا ہے اور پھر وہی کتا اس کو اپنے دانتوں اور ناخنوں سے نوچ کھاتا ہے۔‘‘
Flag Counter