Maktaba Wahhabi

399 - 534
خطاب کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے تمھیں دنیا اس لیے دی ہے کہ تم اس سے آخرت طلب کرو، اس لیے نہیں عطا کی ہے کہ تم اسی کے ہو کر رہ جاؤ، یقینا دنیا فنا ہو جائے گی اور آخرت باقی رہے گی۔ یہ فانی دنیا تمھیں کبر و غرور میں مبتلا نہ کرے، اور تمھیں باقی رہنے والی آخرت سے غافل نہ کرے… اللہ کی نعمت سے ڈرو اور اپنی جماعت کو لازم پکڑو اور گروہ بندی کا شکار ہو کر مختلف ٹولیوں میں بٹنے سے بچو۔‘‘[1] پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (103) (آل عمران: ۱۰۳) ’’اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو، اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمھیں بچا لیا، اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘ ان حالات میں جب کہ مال و دولت کی ریل پیل ہوئی، دنیا مسلمانوں کے قدموں میں آگئی، لوگ فتوحات سے فارغ ہوئے اور اطمینان کی سانس لینے لگے، تو اپنے خلیفہ کو ناپسند کرنے لگے، اور اسی پر ہی اعتراضات شروع کر دیے۔[2] اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فتنہ کی تحریک میں خوش حالی کا کس قدر اثر رہا، اور اس سے عثمان رضی اللہ عنہ کی اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے جو انہوں نے عبدالرحمن بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے کہی تھی جب وہ باب [3] میں تھے: ’’یقینا رعایا میں بہت سے لوگوں کو شکم سیری نے ناشکرا بنا دیا ہے، لہٰذا انہیں روکے رکھو، مسلمانوں کو لے کر آگے نہ بڑھو، مجھے ڈر ہے وہ آزمائش سے دوچار نہ ہو جائیں۔‘‘[4] دنیا کی فراوانی کے بعد مسلمانوں کو وعظ کرتے ہوئے عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری خطاب میں فرمایا تھا: تمھیں
Flag Counter