Maktaba Wahhabi

390 - 534
شخص اس کا صحیح تصور نہیں قائم کر سکتا ہے، اور ان مشکلات کی حقیقت اس پر واضح نہیں ہو سکتی ہے جس سے وہ دوچار ہونے والا ہے، لاشعوری طور سے وہ اس میں داخل ہو جائے گا، اور اس کو یہ پتہ بھی نہ چل سکے گا کہ اس کو اس سے روکا گیا ہے۔[1] ٭ ان فتنوں کے سلسلہ میں جن احادیث میں خبردار کیا گیا ہے ان میں سے بعض میں ان کے اسباب بھی بیان کیے گئے ہیں، یا اس کے نتائج اور اس سے متعلق مسلمانوں کے موقف کو واضح کیا گیا ہے۔ یہ مسلمان بلکہ پوری امت کے لیے انتہائی نفع بخش اور مفید ہیں۔ اس طرح وہ ان اسباب سے دور رہ سکتا ہے، نتائج میں غور و فکر کر کے معین واقعات پر حکم لگا سکتا ہے، اور شروع ہی سے مناسب موقف اختیار کر سکتا ہے۔ ٭ اس کے اندر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی صداقت کی واضح دلیل ہے، جن صحابہ نے ان احادیث کو سنا اور پھر ایک مدت کے بعد ان کی تعبیر کا مشاہدہ کیا اس سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوا، اسی طرح ہر دور میں ہر مومن کے ایمان میں اضافہ ہوتا رہے گا جو ان اختلافات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے مطابق مشاہدہ کرے گا۔[2] ڈاکٹر عبدالعزیز صغیر دخان نے احادیث فتنہ کو جمع کیا ہے، اور پھر اس کا دراسہ کر کے اپنی کتاب ’’احداث واحادیث فتنۃ الہرج‘‘ میں صحیح و ضعیف کو بیان کیا ہے، اور پھر احادیث صحیحہ سے ان معانی کا استخراج کیا ہے جن پر یہ احادیث دلالت کرتی ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں: ۱۔ اقوام و امم کے درمیان فتنوں کا رونما ہونا سنن الٰہیہ اور فطرت کونیہ میں سے ہے، اور تا قیامت اس امت میں بھی یہ سنت الٰہی جاری رہے گی، بلکہ اندھیری رات کی طرح اندھے، بہرے اور گونگے فتنے رونما ہوں گے، جو اس میں گھسا دنیا و آخرت میں تباہ ہوا اور جس نے اپنے آپ کو دور رکھا کامیاب رہا۔ ان میں اپنے موقف کی صحیح تعیین وہی کر سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم سے زندگی بخشی ہو، تقویٰ کا بھرپور جوہر عطا کیا ہو، اور ہدایت حق بخشی ہو۔[3] ۲۔ ان احادیث سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے مابین فتنۂ قتال ضرور رونما ہو گا، اس کا انکار ممکن نہیں، صحابہ و تابعین کے دور سے لے کر آج تک تمام اسلامی ادوار میں یہ چیز رہی ہے، لیکن ضروری یہ ہے کہ اس قتال کے اسباب کی معرفت حاصل کی جائے تاکہ اس سے بچا جا سکے، اور جب بھی اسلامی ممالک میں یہ فتنہ سر اٹھائے تو اس کو بجھانے کی سعی و کوشش کی جائے، اور یہ بالکل مناسب نہیں کہ ہم
Flag Counter