Maktaba Wahhabi

384 - 534
متعلق بحث و تحقیق کی جائے۔ چنانچہ ابن کثیر اور طبری وغیرہ نے اسلامی تاریخ کے اس نازک دور سے متعلق بہت کچھ تحریر کیا، اور اس فتنہ سے متعلق بہت سے امور و قضایا کی تفصیلات بیان کی ہیں، جب کہ ان میں سے کچھ علماء تو وہ ہیں جنھوں نے طرفین یا طرفین میں سے کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرایا اور ان روایات اور نصوص پر اعتماد کیا جس میں صحیح اور غلط سب گڈمڈ ہیں۔[1] ایسے اسباب و وجوہ آج پائے جاتے ہیں جو اہل سنت کے علماء و طلبہ کو اس فتنہ کی گہرائیوں میں غوطہ زنی اور اس کی تفصیلات میں بحث و تحقیق کی دعوت دیتے ہیں، من جملہ ان اسباب کے یہ ہیں: دور حاضر کی وہ تالیفات جو صحابہ و تابعین کے درمیان فتنہ کے واقعات پر مشتمل ہیں وہ تین طرح کی ہیں: ۱:…وہ کتب و مؤلفات جن کے مصنّفین کی تربیت اسلامی تاریخ سے بغض و عناد سے پر ہے اور وہ مغربی افکار کے سائے میں پلے بڑھے اور یا وہ اسلامی تاریخ سے جاہل ہیں، ان لوگوں نے اسلامی تاریخ میں کوئی اچھی چیز نہیں دیکھی، پھر صحابہ و تابعین پر زبان طعن و تشنیع دراز کی اور ان دشمنان اسلام کے اہداف کی خدمت کی جنھوں نے اس فتنہ اور اس کی تفصیلات پر ریسرچ کر کے اس کی ایسی تفسیر پیش کی ہے جو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلام کو اس کے اصول میں مطعون قرار دیتی ہے، اور ان واقعات کو جاہ و منصب اور کرسی کے حصول کے لیے سیاسی جنگ قرار دیتی ہے، جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے ایمان و تقویٰ اور صدق مع اللہ سے عاری اور طالب دنیا اور لیڈری کے شوقین نظر آتے ہیں۔ ریاست و قیادت کی خاطر اس کی پروا نہیں کہ لوگوں کے خون بہیں، ان کی جانیں ضائع ہوں، بر سر بازار ان کی عزتیں نیلام ہوں، اور حرمتیں پامال ہوں۔ اس بہتان عظیم کی زمام کار جس نے سنبھالی اس میں سر فہرست طہٰ حسین ہے، اس نے اپنی ناپاک کتاب ’’الفتنۃ الکبریٰ‘‘[2] میں یہی کچھ کیا ہے۔ حقیقت میں یہ کتاب مسلم نوجوان کی عقلوں کے لیے اسم بامسمّٰی عظیم فتنہ ہے۔ طہٰ حسین نے اس کتاب کے اندر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر زبان طعن و تشنیع دراز کی ہے، ان کی نیتوں سے متعلق شکوک پیدا کیے ہیں، اور اعدائے اسلام کی خدمت کی خاطر ان پر ناپاک اتہامات لگائے ہیں۔ [3] طہٰ حسین کے منہج سے بہت سے لوگ متاثر ہوئے۔ بظاہر ان حضرات نے ان تاریخی روایات پر کلی اعتماد کیا جسے طبری اور ابن عساکر جیسے مؤرخین نے جمع کر دیا ہے، جس میں جھوٹ و سچ، غلط و صحیح سب گڈمڈ ہے، انہوں نے ان مؤرخین کے منہج کا خیال کیے بغیر ان سے روایات نقل کر لیں جو بہت بڑی غلطی ہے۔[4]
Flag Counter