Maktaba Wahhabi

348 - 534
ایک مشرق میں اور دوسری نہر’’ نہر ام عبداللہ‘‘ سے معروف ہے جو عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی والدہ کی طرف منسوب ہے۔[1] عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابی سفیان کو نہر ابلہ کھودنے کا حکم فرمایا۔ زیاد، عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی طرف سے دیوان اور بیت المال پر مقرر تھے، جب آپ فتوحات کے لیے کہیں روانہ ہوتے تو زیاد ہی آپ کے قائم مقام ہوتے۔[2] خلیفہ ابن خیاط نے بیان کیا ہے کہ زیاد نے نہر ابلہ کی کھدائی کی اور پہاڑی تک پہنچ گئے، اور کھدائی کی ذمہ داری عبدالرحمن بن ابی بکرہ نے سنبھالی۔[3] جب عبدالرحمن نے پانی کھولا تو اپنا گھوڑا دوڑایا، پانی کا دھارا اتنا تیز تھا کہ وہ گھوڑے سے آگے بڑھ رہا تھا۔[4]عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے اسی طرح ایک حوض بھی کھدوایا جو آپ کی والدہ کی طرف منسوب ہوا اور بصرہ میں حوض ام عبداللہ بن عامر کے نام سے معروف ہے۔[5] بلاذری نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے ایک نہر جاری کرائی جس کی ذمہ داری اپنے غلام نافذ کو سونپی جو نہر نافذ کے نام سے معروف ہوئی۔[6] اسی طرح نہر مرہ بھی آپ ہی نے جاری کرائی جس کی کھدائی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام مرہ نے کی جو انہی کے نام سے مشہور ہو گئی۔[7]اسی طرح نہر اساورہ بھی آپ نے جاری کرائی۔[8] بلاذری نے بصرہ میں قنطرۃ قرہ (قرہ پل) کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: یہ قرہ بن حیان باہلی کی طرف منسوب ہے، اس کے پاس قدیم نہر تھی جس کو عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی والدہ نے خرید کر بصرہ والوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔[9] گزشتہ بیان سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نہروں کی کھدائی کا اہتمام کرتے تھے مقصد یہ تھا کہ زراعت میں ترقی ہو جو اقتصادی زندگی کا ستون ہے۔ مزید برآں تجارتی شاہراہوں کی مناسبت سے بصرہ کا موقع و محل بھی اہمیت کا حامل تھا، اور مشرق میں اسلامی فتوحات کا مرکز ہونے کی حیثیت سے اس کی اہمیت مسلم تھی۔ عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے اصلاحی جذبات کا اندازہ ان کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے: ’’اگر مجھے آزادی دے دی جائے تو خاتون اپنی سواری پر نکلے گی درآں حالے کہ تک اس کو ہر روز پانی
Flag Counter