Maktaba Wahhabi

344 - 534
لکھا، باوجودیکہ اس وقت آپ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ صفین کی جنگ میں مصروف تھے۔‘‘[1] اس سلسلہ میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: ’’معاویہ رضی اللہ عنہ نے رومیوں کو کچل کر رکھ دیا، ان پر غلبہ حاصل کیا وہ آپ کے سامنے ذلیل و رسوا ہوئے، ہمہ وقت آپ سے خوفزدہ رہنے لگے لیکن شاہِ روم نے دیکھا کہ آپ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ میں مشغول ہیں تو اس کو طمع و لالچ پیدا ہوئی، اور عظیم لشکر کے ساتھ اسلامی سرحدوں سے قریب آگیا۔ اس صورت حال میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کو دھمکی آمیز یہ خط ارسال فرمایا: ’’اللہ کی قسم! اے ملعون اگر تو اپنی حرکت سے باز نہ آیا اور اپنے ملک کو واپس نہ چلا گیا تو میں اور میرے چچا زاد بھائی علی تمہارے خلاف مصالحت کر کے متحد ہو جائیں گے، اور تمھیں تمہارے پورے ملک سے نکال باہر کریں گے، اور وسعت کے باوجود روئے زمین کو تم پر تنگ کر دیں گے۔‘‘ اس پر شاہ روم خوفزدہ ہو گیا اور مصالحت کی پیش کش کی۔[2] شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ : علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: … تواتر سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی امارت سونپی۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آپ کی امانت داری مسلم تھی، آپ وحی لکھا کرتے تھے، کتابت وحی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو متہم نہیں کیا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جو مردم شناسی میں سب سے ماہر تھے (آپ کو گورنر مقرر فرمایا) اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب و زبان پر حق کو جاری کر دیا تھا۔ آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی گورنری میں کوئی عیب نہیں لگایا۔[3] مؤرخ اسلام ابن کثیر رحمہ اللہ : علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ۴۱ھ میں پوری ملت اسلامیہ کا آپ کی بیعت پر اجماع ہوا،… اور آپ وفات تک بلا اختلاف خلیفہ رہے، اس مدت میں دشمن ممالک میں جہاد قائم رکھا، اللہ کے کلمہ کو بلند رکھا، اموال غنیمت چہار جانب سے آپ کی خدمت میں پیش ہوتے رہے، مسلمان آپ کے ساتھ پوری راحت و عدل اور عفوو درگزر میں زندگی گزارتے رہے۔ آپ انتہائی بردبار تھے۔[4] باوقار قیادت و سیادت کے مالک، جود و سخا کے پیکر، عادل اور انتہائی عقلمند و ہوشیار قائد تھے۔[5]
Flag Counter