ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمرو بن العاص اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہما کے مابین اختلاف رائے رونما ہوا جس کی وجہ سے بیعت خلافت کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور آپ سے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو ’’صعید‘‘ کی ولایت سے معزولی کا مطالبہ کیا، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے منظور نہ کیا اور ان سے کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو متعین کیا تھا اور اس نے ایسا کوئی فعل نہیں کیا ہے جو معزولی کا موجب ہو۔ لیکن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان کی معزولی کے لیے مصر رہے اور عثمان رضی اللہ عنہ عدم معزولی کے موقف پر قائم رہے۔ طرفین کے اس اصرار کے نتیجہ میں عثمان رضی اللہ عنہ نے مناسب یہ سمجھا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ہی معزول کر دیا جائے چنانچہ ان کو مصر کی گورنری سے معزول کر کے ان کی جگہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو مصر کا گورنر مقرر فرما دیا۔[1] انہی حالات میں رومیوں نے اسکندریہ پر حملہ آور ہو کر اس پر قبضہ کر لیا، اور وہاں موجود تمام مسلمانوں کو شہید کر دیا، اس کے پیش نظر عثمان رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ کو دوبارہ فتح کرنے اور رومی فوج کو ختم کرنے کے لیے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو مصری افواج کا کمانڈراِن چیف مقرر فرمایا[2] اس کی تفصیل ہم فتوحات کے ضمن میں بیان کر چکے ہیں، پھر عثمان رضی اللہ عنہ کا ارادہ ہوا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو لشکر مصر اور جنگ پر مقرر کر دیں، اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو خراج کی وصولی پر، لیکن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اس کو قبول کرنے سے معذرت کر دی۔ عہد عثمانی میں تاریخ کے صفحات میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا ذکر بحیثیت گورنر تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، صرف اسکندریہ سے رومی افواج کے مار بھگانے، مصر میں امن و امان بحال کرنے اور خراج سے متعلق جو اختلاف رائے عثمان اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے مابین رونما ہوا اسی کا ذکر ملتا ہے۔[3] عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی معذرت کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو مصر پر بحیثیت گورنر متعین کر دیا، اور مصر کے سرکاری گورنر وہی رہے، لشکر جہاد و خراج اور دیگر تمام امور انہی کے سپرد رہے۔[4] مصر میں امن و امان بحال رہا، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں جب فتنہ پرور وہاں پہنچے اور عبداللہ بن سبا کی تحریک نے وہاں اپنے پنجے جمائے تو وہاں کا امن و استقرار پامال ہوا، اور سبائی تحریک اور اس سے متاثر افراد کا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت میں اہم کردار رہا۔[5] اس کی تفصیل ان شاء اللہ اپنے مقام پر آئے گی۔ |
Book Name | سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ، خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ، پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 535 |
Introduction |