Maktaba Wahhabi

294 - 534
کی طرح کتاب الٰہی میں اختلاف رونما ہونے سے قبل اس امت کی خبر لیجیے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کو کہلا بھیجا کہ قرآن آپ ہمیں بھیج دیں، اس کے مختلف نسخے کرا کے ہم آپ کو واپس کر دیں گے۔ ام المومنین نے قرآن کو عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ آپ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن العاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم فرمایا اور انہوں نے اس کے مختلف نسخے تیار کیے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے تینوں قریشی حضرات (عبداللہ، سعد، عبدالرحمن) سے فرمایا تھا کہ جب تمہارا قرآن کے کسی لفظ کے طرز تحریر میں زید بن ثابت سے اختلاف ہو تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو کیوں کہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، اور جب یہ حضرات قرآن کو مختلف مصاحف میں منتقل کر چکے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اصل صدیقی نسخہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کو واپس کر دیا، اور پھر تیار کردہ مصاحف کا ایک ایک نسخہ خلافت اسلامیہ کے مختلف علاقوں کو بھیج دیا۔ اور اس کے علاوہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس ذاتی نسخے تھے اور انہوں نے اپنی یادداشت کے لیے اپنے اپنے ڈھنگ سے تحریر کر رکھے تھے انہیں جلا دینے کا حکم جاری کیا۔[1] (تاکہ بعد میں یہ چیز قرآن میں اختلاف کا سبب نہ ہو۔) اس صحیح روایت سے ہمارے سامنے مختلف امور ثابت ہوتے ہیں: ٭ اگرچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں قرآن کی جمع و ترتیب کا کام ہو چکا تھا، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں جمع قرآن کا حکم نافذ فرمایا، اس کا اصل سبب قراء ت قرآن میں مسلمانوں کے مابین اختلاف کا رونما ہونا تھا، قریب تھا کہ اس اختلاف کے سبب قرآن کے سلسلہ میں خطرناک فتنہ برپا ہو جائے، حالاں کہ قرآن ہی شریعت کی اصل، دین کا ستون اور امت کی معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی عمارت کی اساس و بنیاد ہے۔ صورت حال یہ ہو گئی تھی کہ بعض لوگ کہنے لگے تھے یہ میری قراء ت تمہاری قراء ت سے افضل ہے، جس کی وجہ سے حذیفہ رضی اللہ عنہ پریشان ہو گئے، اور مسلمانوں کے امام و خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے، اور ان سے درخواست کی کہ اختلاف رونما ہونے سے پہلے امت کی خبر لیں تاکہ مسئلہ بڑھنے نہ پائے، اور یہ اختلاف سنگین صورت اختیار نہ کر لے، اور نص قرآنی میں اختلاف رونما نہ ہو جائے اور کلمات و آیات میں تبدیلی نہ واقع ہو جائے جیسا کہ یہود و نصاریٰ اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ٭ یہ صحیح حدیث اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم صحائف میں لکھ کر ایک جلد میں لایا جا چکا تھا اور امت کا اس پر مکمل اتفاق ہو چکا تھا کہ جو کچھ اس میں مکتوب ہے وہ وہی قرآن ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبریل امین علیہ السلام کے واسطہ سے آخری دور میں حاصل ہوا۔ یہ قرآن خلیفہ اوّل ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی حفاظت میں منتقل ہوا، اور جب عمر رضی اللہ عنہ کا آخری وقت آیا اور آپ نے
Flag Counter