Maktaba Wahhabi

285 - 534
ذمہ داری کے لیے سلمان رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا، حالاں کہ وہاں اسلامی فتوحات کے عظیم کمانڈر اور جرنیل موجود تھے، لیکن سب پر آپ کو ترجیح دی کیوں کہ آپ امداد و قوت اور شجاعت و بہادری کی نادر مثال تھے، اور اس کے ساتھ ورع اور تقویٰ کے پیکر تھے۔ آپ انتہائی بہادر، پیش قدمی کرنے والے، جلد امداد کو پہنچنے والے اور جنگی فنون کے ماہر اور تجربہ کار تھے، کیوں کہ ایک طویل مدت آپ نے جنگ میں گزاری تھی اور آپ کو لوگوں کی قیادت کا طویل تجربہ تھا، اونٹوں کے جوڑوں پر قصاب کے ضرب لگانے سے زیادہ دشمن پر ضرب لگانے کے ماہر تھے۔[1] جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ماہر تیر انداز تھے، آپ شہسواری کے ماہر تھے، گھوڑوں کا گہرا تجربہ رکھتے تھے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں گھوڑوں کے ذمہ دار تھے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہر شہر میں جہاد کے لیے بہت سے گھوڑے پال رکھے تھے، صرف کوفہ میں چار ہزار گھوڑے تھے، اسلامی حدود پر جب کفار حملہ آور ہوتے تو مسلمان مجاہدین ان گھوڑوں پر سوار ہو کر ان سے قتال کے لیے روانہ ہو جاتے۔[2] اور سلمان رضی اللہ عنہ کوفہ میں گھوڑوں کے ذمہ دار تھے۔[3] آپ انتہائی بہادر شہسوار تھے، سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی اس تلوار سے سو جنگی اسلحہ سے لیس سپاہیوں کو قتل کیا، یہ سب کے سب غیر اللہ کو پوجنے والے تھے، کسی شخص کو میں نے باندھ کر قتل نہیں کیا۔ آپ اپنے مدمقابل کافر اور غیر اللہ کو پوجنے والے دشمن کو بھی میدان جنگ میں دھوکہ سے قتل نہیں کرتے تھے بلکہ اس کو آگاہ کرتے اور ایک دوسرے پر مدمقابل کی طرح حملہ کرتے اور موقع پا کر اس کو قتل کر دیتے، چنانچہ یہ قتل نہ دھوکا سے ہوتا اور نہ باندھ کر ہوتا تھا۔[4] آپ سچے و مخلص مثالی مجاہد تھے جو اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے جہاد کیا کرتا ہے، وہ اس کی پروا نہیں کرتاکہ اللہ کی راہ میں کس پہلو پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔ آخرکار یہ مرد مجاہد اپنے خون میں لت پت گر پڑا، لیکن اس کی تلوار اس کے ہاتھ سے نہ چھوٹی، یہ ہر سپاہی اور ہر جرنیل کے لیے تابناک اور شرف و بزرگی سے پر ماضی اور ہمیشہ روشن رہنے والے نادر کارناموں میں بہترین نمونہ و اسوہ ہے۔[5] ۳۲ھ یا ۳۳ھ [6] میں فقیہ و محدث، قاضی عادل، بے داغ امین، دور اندیش منتظم، دلیر سپاہی، بہادر شہسوار اور فاتح سپہ سالار سلمان بن ربیعہ باہلی رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا۔[7]
Flag Counter