Maktaba Wahhabi

283 - 534
عبدالرحمن نے بلنجر پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں چڑھائی کی تو ترکوں نے کہا: اس شخص کو ہم پر چڑھائی کرنے کی جرأت اسی لیے ہوئی کہ اس کے ساتھ فرشتوں کی جماعت ہے جو انہیں موت سے بچاتی ہے چنانچہ ترک ان کے مقابلہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور قلعہ بند ہو گئے، اور آپ مال غنیمت اور فتح و نصرت کے ساتھ بلنجر سے دو سو فرسخ کے فاصلہ پر بیضاء میں اپنے شہسواروں کے ساتھ پہنچ کر واپس ہوئے، اس وقت آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی شہید نہ ہوا۔[1] دین کے ساتھ پختہ وابستگی اور مسلسل فتوحات کی وجہ سے مسلمانوں کی ہمتیں انتہائی بلند اور دیگر اقوام کی ہمتیں انتہائی پست تھیں، کیوں کہ مسلمان جن اقوام سے قتال کرتے ان پر غالب آتے، اسی لیے ترک مسلمانوں کے مقابلہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور قلعہ بند ہو گئے، چنانچہ اس معرکہ میں عملی طور پر لڑائی نہیں ہوئی، اور مسلمانوں میں سے کوئی شہید نہ ہوا۔[2] عبدالرحمن بن ربیعہ الباہلی عظیم تقویٰ اور انتہائی کریمانہ اخلاق کے حامل تھے، مغلوب اقوام کے ساتھ آپ کے برتاؤ سے امن و استقرار کے قیام اور اسلام کی نشر و اشاعت میں بڑا گہرا اثر رہا۔ آپ انتہائی وفادار اور حد درجہ کے امین تھے۔ باب کے بادشاہ نے، مسلمانوں کے اس علاقہ کو فتح کرنے سے قبل اپنا ایک ایلچی ہدیہ وغیرہ کے ساتھ چین کے بادشاہ کے پاس روانہ کیا۔ اتفاق سے یہ ایلچی اس وقت واپس ہوا جب یہ علاقہ مسلمان فتح کر چکے تھے، اس کے ساتھ چین کے بادشاہ کی جانب سے باب کے بادشاہ کے لیے ہدیہ تھا جس میں ایک قیمتی سرخ یاقوت تھا، ایلچی کی واپسی کے وقت بادشاہ عبدالرحمن باہلی کی مجلس میں موجود تھا۔ بادشاہ نے اپنے ایلچی سے اس یاقوت کو لیا، پھر اسے عبدالرحمن کو پیش کیا۔ عبدالرحمن نے اسے دیکھ کر فوراً بادشاہ کو واپس کر دیا۔ اس سے بادشاہ اس قدر متاثر ہو کر پکار اٹھا کہ ’’یہ یاقوت اس ملک (باب الابواب) سے زیادہ قیمتی ہے۔ اللہ کی قسم آپ لوگ آل کسریٰ سے زیادہ میرے نزدیک محبوب حکام ہو، اگر میں ان کی سلطنت میں ہوتا اور ان کو اس کی خبر ملی ہوتی تو وہ اسے مجھ سے ضرور چھین لیتے۔ اللہ کی قسم اگر تم اور تمہارا سلطان اکبر اسی طرح وفا داری کرتے رہے تو تمھیں کوئی زیر نہیں کر سکتا۔[3] مسلم جرنیل کی امانت اور وفاداری پر ’’الباب‘‘ کے بادشاہ کا شدید تعجب و حیرت کا شکار ہونا بجا تھا کیوں کہ اس نے اپنی پوری عمر خیانت و غداری کے ماحول میں گزاری تھی، پھر جب اس نے مسلمانوں کی مثالی امانت داری اور وفاداری کا مشاہدہ کیا تو اپنے نفس پر ضبط نہ کر سکا اور اپنی ضائع شدہ سلطنت بھول گیا، اور امانت و وفاداری سے متاثر ہو کر اپنے دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے کلمات کے ذریعہ سے اپنے شعور و احساس کی تعبیر پیش کی۔[4]
Flag Counter