Maktaba Wahhabi

208 - 534
اوقات حج سے فارغ ہو کر یہاں میں قیام کر سکتا ہوں۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان میں کسی میں آپ کے لیے عذر نہیں کہ آپ دو رکعت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی سنت رہی ہے کی جگہ چار رکعت پڑھیں۔ آپ کا یہ کہنا کہ میں نے یہاں شادی کی ہے تو آپ کی بیوی آپ جہاں رہیں گے وہاں وہ بھی رہے گی جب چاہیں لائیں جب چاہیں لے جائیں وہ آپ کے تابع ہے۔ اور آپ کا یہ کہنا کہ طائف میں میری جائداد ہے تو یہاں آپ اور طائف کے درمیان تین دنوں کا فاصلہ ہے اور پھر آپ طائف کے باشندوں میں سے نہیں ہیں اور رہا آپ کا یہ کہنا کہ اہل یمن وغیرہ یہ کہیں گے کہ امیر المومنین عثمان مقیم ہوتے ہوئے دو ہی رکعت پڑھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کا سلسلہ جاری تھا لوگوں میں اسلام کم تھا پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا زمانہ ایسے ہی رہا پھر عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا اسلام غالب آیا اور عمر رضی اللہ عنہ وفات تک یہاں دو ہی رکعت پر اکتفا کرتے رہے۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ میری رائے ہے جو میں نے مناسب سمجھی ہے۔ اس کے بعد یہاں سے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نکلے اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ فرمایا: ابو محمد! کیا خبر اس کے برعکس ہے جو وہ جانتے ہیں؟ فرمایا نہیں؟ فرمایا: کیا کروں؟ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا جو آپ جانتے ہیں اس کے مطابق عمل کیجیے تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اختلاف شر ہے مجھے جب یہ خبر ملی کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے چار رکعت پڑھائی ہے تو میں نے بھی لوگوں کو چار رکعت ہی پڑھائی۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن مجھے خبر ملی کہ انہوں نے چار رکعت پڑھائی ہے تو میں نے اپنے ساتھیوں کو دو رکعت پڑھائی، لیکن اب ویسے ہی ہو گا جو آپ فرما رہے ہیں یعنی چار رکعت پڑھوں گا۔[1] عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ و عرفات میں قصر نہ کرتے ہوئے مکمل چار رکعت نماز کمزور اور جاہل مسلمانوں پر شفقت کرتے ہوئے پڑھائی تاکہ وہ فتنہ میں مبتلا نہ ہوں، چنانچہ جب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپ سے اس سلسلہ میں پوچھا تو آپ نے اس کا معقول سبب بتایا، اور انہیں اپنے نقطۂ نظر سے آگاہ کیا تو انہوں نے آپ کے قول کا اعتبار کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو پوری نماز پڑھائی اور قصر نہ کیا اسی طرح عبداللہ بن مسعود اور جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا اور ان کی مخالفت نہ کی، کیوں کہ آپ امام راشد تھے جس کی متابعت واجب ہوا کرتی ہے بشرطیکہ شریعت مطہرہ سے نہ ہٹا ہو۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کہا اگر اس میں نص شرعی کی مخالفت کا ذرا بھی شبہ پایا جاتا تو جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی متابعت نہ کرتے۔[2] عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سوالات کے جواب میں عثمان رضی اللہ عنہ نے جو کچھ فرمایا اور جو دلائل پیش کیے وہ معقول ہیں اگر دین و شریعت کے اسرار و حکم پر بحث کرنے والے اس سلسلہ میں غور کریں تو یہ حقیقت آشکارا ہو گی
Flag Counter