Maktaba Wahhabi

172 - 534
اس ارشاد کے ذریعہ سے عثمان رضی اللہ عنہ نے مندرجہ ذیل مبادی متعین فرمائے: ا۔ سالانہ زکوٰۃ: غلوں اور پھلوں کے علاوہ کی زکوٰۃ کے لیے حولان حول (سال بھر گزرنا) شرط ہے اور یہ بات عثمان رضی اللہ عنہ کے ارشاد سے ظاہر ہے کہ جس سے زکوٰۃ لے لی گئی اس کو دوبارہ زکوٰۃ نہیں ادا کرنا ہے یہاں تک کہ آئندہ سال یہی مہینہ دوبارہ آجائے۔ لہٰذا ایک سال کے اندر دوبارہ زکوٰۃ نہیں لی جائے گی۔ ب۔ اگر ہم ابو عبید کا قول لیتے ہیں کہ اس مہینہ سے مقصود ماہ محرم ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ چاہا کہ اسلامی مالی سال ہجری سال کے بالکل مطابق ہو لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ مکمل ہجری سال گزرنے پر، اگر مال پر شرائط زکوٰۃ پائی جاتی ہیں تو ہر ہجری سال کے آغاز میں زکوٰۃ ادا کر دیا کریں۔ ج۔ عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کو اموال زکوٰۃ کا حساب کرنے کی دعوت دیتے ہیں، ان سے آپ کا مطالبہ ہے کہ قرض ادا کر دیں تاکہ باقی مال پر زکوٰۃ عائد کی جائے۔[1] شاید عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کو اس بات پر ابھارنا چاہتے ہیں کہ وہ قرض خواہوں کو قرض ادا کر دیں تاکہ زکوٰۃ کا حساب کرنے میں آسانی ہو اور قرض صرف شکلی نہ رہے بلکہ اس سلسلہ میں سنجیدگی واضح ہو۔[2] د۔ عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اور جس کے پاس نصاب زکوٰۃ تک مال نہ ہو اس سے زکوٰۃ نہیں لی جائے گی یہاں تک کہ وہ نفلی طور پر دے۔‘‘ اس کے ذریعہ سے عثمان رضی اللہ عنہ نفلی صدقات کی دعوت دیتے ہیں بعض حضرات جو اپنے آپ کو زکوٰۃ ادا کرنے کا مستحق نہیں سمجھتے لیکن اس کے باوجود نفلی صدقات نکالنا چاہتے ہیں جسے وہ بیت المال میں جمع کریں تو وہ ان سے قبول کیے جائیں گے اور ان کو موارد زکوٰۃ میں شامل کیا جائے گا اور پھر حکومت ان کو مصارف زکوٰۃ میں خرچ کرے گی۔[3] اور عثمان رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد ’’اور جس سے ہم نے زکوٰۃ لے لی اس سے زکوٰۃ نہیں لیں گے الا یہ کہ وہ نفلی طور سے ادا کرے‘‘ کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ بیت المال سونا اور چاندی کی زکوٰۃ نہیں وصول کرے گا۔ الا یہ کہ صاحب مال خود اسے بیت المال کو ادا کرے۔ البتہ جس زکوٰۃ پر لوگوں کو مجبور کیا جائے گا اور اس کو روکنے پر ان سے جہاد کیا جائے گا وہ جانوروں اور کھیتی اور کھجور کی زکوٰۃ ہے۔ اس طرح گویا عثمان رضی اللہ عنہ نے مالکین مال کو اموال باطنہ سونا، چاندی اور تجارت کی زکوٰۃ میں آزاد چھوڑ دیا ہے، بیت المال ہی کو ادا کرنا لازم نہیں خود وہ مستحقین زکوٰۃ میں تقسیم کر سکتے ہیں الا یہ کہ وہ خود سے اپنی خوشی سے بیت المال کو ادا کریں۔[4] اس سلسلہ میں ابو عبید کا کہنا ہے: ’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے محصلین کو روانہ فرماتے، وہ ان سے برضا و جبر زکوٰۃ وصول کرتے تھے، یہی روش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ
Flag Counter