Maktaba Wahhabi

90 - 413
اس کے راوی ثقہ اور وہ حدیث صحیح ہوتی ہے۔اسی طرح المستدرک کی ایک حدیث حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے نقل کر کے لکھتے ہیں: (( سکت عنہ الحاکم والذھبی فی تلخیصہ فھو حسن)) [1] ’’اس سے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے سکوت کیا لہٰذا یہ حسن ہے۔‘‘ نتیجہ بالکل واضح ہے کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا المستدرک میں اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا اس کی تلخیص میں کسی روایت پر سکوت اس حدیث کے راویوں کے ثقہ ہونے اور اس روایت کے حسن یا صحیح ہونے کا ثبوت ہے۔ بلکہ اگرکسی راوی پر کلام بھی ہو اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اس کی حدیث کو صحیح کہیں تو اس راوی پر کلام غیر مضر قرار پاتا ہے چنانچہ ایک جگہ ربیعہ بن سیف کی روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: ((رواہ الحاکم فی المستدرک(374,373/1) وصححہ علی شرط الشیخین وأقرہ علیہ الذہبی فی تلخیصہ فلا یضر مافی ربیعۃ من مقال)) [2] ’’اسے حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے المستدرک میں روایت کیا ہے اور علی شرط شیخین اس کی تصحیح کی ہے، ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے لہٰذا ربیعہ میں کلام باعث ضرر نہیں۔‘‘ ان دونوں بزرگوں کی بات درست ہے یا نہیں اس تفصیل میں ہم جانا نہیں چاہتے صرف اتنا مقصود ہے کہ متکلم فیہ راوی کے بارے میں کلام بھی بے ضرر قرار پاتا ہے جب امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ تصحیح کردیں۔
Flag Counter