Maktaba Wahhabi

88 - 413
’’اس پر بہت سے ائمہ مثلاً امام احمد، ابن معین اور ابو داود رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے کلام کیا ہے۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: ((قال ابن حبان: داود الأودي ضعیف کان یقول بالرجعۃ)) [1] ’’امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے داود الأودی ضعیف ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رجعت کا قائل تھا۔‘‘ اب دیکھئے کہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے الدرایہ[2] میں پہلے مقام پر تو سکوت کیا ہے جبکہ دوسرے مقام [3] پر اجمالاً حدیث کی تضعیف کی ہے۔ اب کیا سمجھ لیاجائے کہ پہلے مقام پر حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کا سکوت حدیث کی تقویت کا باعث ہے؟ یہاں یہ بھی دیکھئے کہ’ باب الصلاۃ فی السفینۃ‘ کے تحت بحوالہ نصب الرایہ [4] مصنف عبد الرزاق سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا اثر نقل کیا ہے اور اس سے استدلال کرتے ہوئے اسے حسن قرار دیا ہے۔ وہ اثر سنداً کیسا ہے؟ ہمیں اس سے کوئی بحث نہیں ہمیں تو صرف یہ عرض کرنا ہے کہ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ مرحوم نے فرمایا ہے: ((سندہ حسن فی الدرجۃ الثانیۃ وإن ضعفہ الحافظ فی الدرایۃ)) [5] ’’کہ اس کی سند حسن کے دوسرے درجہ کی ہے اگر چہ اسے حافظ نے الدرایہ میں ضعیف کہا ہے۔‘‘ غور فرمائیے کہ الدرایہ میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا ’’ضعیف ‘‘کہنا تو محلِ نظر ٹھہرے مگر ان کا سکوت قابلِ اعتبار قرار پائے۔ حالانکہ نصب الرایہ کے حنفی محشی نے بھی الدرایہ سے اس کی تضعیف نقل کی ہے۔
Flag Counter