Maktaba Wahhabi

86 - 413
مزیدعرض ہے کہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے التلخیص[1]میں رفع الیدین کی بابت روایت کے بارے میں کہا ہے۔ ’زاد البیہقی فمازالت تلک صلاتہ حتی لقی اللّٰه‘ کہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ الفاظ زیادہ ذکر کیے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اسی طرح رفع الیدین سے رہی تاآنکہ آپ کی اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہو گئی۔‘‘اس روایت پر بھی تو حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے سکوت کیا ہے،مگر حضرت موصوف اسے موضوع قرار دیتے ہیں۔[2] اصول کہاں گیا؟ مزید دیکھئے کہ حضرت موصوف نے مسلک کے خلاف بیہقی کی اس حدیث کو موضوع قرار دے دیا جبکہ وہ ایک اور مقام پر اپنے موقف کی تائید میں ابنِ ماجہ اور بیہقی کی ایک روایت جس کے بارے بعض نے کہا ہے کہ موضوع ہے، کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ((ولیس بمتحقق الوضع کما قالہ بعض الناس بالجزم: إنہ موضوع، لأنہ أخرجہ البیھقی أیضاً فی سننہ، وقد التزم البیھقی أن لا یخرج فی کتبہ شیئا من الموضوع)) الخ [3] ’’اس کا موضوع ہونا متحقق نہیں، جیسا کہ بعض نے بالجزم اسے موضوع کہا ہے کیونکہ اسے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی سنن میں ذکر کیا ہے اور انھوں نے التزام کیا ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں کوئی موضوع روایت نہیں لائیں گے۔‘‘ بلکہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں یہی ضابطہ مولانا موصوف نے قواعد علوم الحدیث [4] میں بھی بیان کیا ۔ اللہ بھلا کرے شیخ ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ کا کہ انھوں نے قواعد کے حاشیہ میں بڑے زور دار الفاظ سے اس کی تردید کر دی ،مگر سوال یہ ہے کہ حضرت موصوف کے ہاں جب امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قاعدہ ہے تو وہ کس منہ سے ان کی بیان کردہ روایت کو موضوع قرار دیتے ہیں۔
Flag Counter