Maktaba Wahhabi

75 - 413
التلخیص[1] کے علاوہ فتح الباری [2] میں بھی مذکور ہے ۔مولانا عثمانی فرماتے ہیں: ((ذکرہ الحافظ فی الفتح أیضاً مختصراً فھو إماحسن أوصحیح علی قاعدتہ)) [3] ’’اسے حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے الفتح میں بھی مختصراً ذکرکیا ہے لہٰذا یہ ان کے قاعدہ کے مطابق حسن ہے یا صحیح ہے۔‘‘ بلاشبہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے التلخیص میں مکمل اور فتح الباری میں اشارۃً اس کا ذکر کیاا ور دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اس کا انتساب کیا ہے۔ ’رواہ الدارقطنی‘ جب کہا جائے تو اس سے ان کی السنن مراد ہوتی ہے،مگر سنن میں یہ روایت نہیں جیسا کہ خود مولانا عثمانی نے ذکر کیا ہے۔علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ارواء الغلیل [4] میں اسے التلخیص کے حوالے سے ہی ذکر کیا ہے اور بعض دیگر حضرات نے اسی حوالے سے اس کا ذکر کیا ہے،مگر کسی نے اس کی مکمل سند ذکر نہیں کی۔ البتہ علامہ السھیلی کی ’’الروض الانف‘‘ میں اس کی ابتدائی سند بھی مل گئی۔ والحمد للہ علی ذلک، چنانچہ فرماتے ہیں: ((روی الدارقطنی عن عثمان بن أحمد بن السماک قال نا احمد بن غالب الباھلی قال نا محمد بن عبد اللّٰه ابو زید المدنی قال ناالمغیرۃ بن عبد الرحمن عن مالک))الخ[5] مسند میں ابن السماک امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد ہیں اور ثقہ ہیں خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں ان کا ذکر کیا ہے۔ ان کا استاد احمد بن غالب، دراصل احمد بن محمد بن غالب الباھلی ہے جس کا لقب ’’غلام خلیل‘‘ ہے اور اس کے تلامذہ میں ابن السماک کا ذکر تاریخ بغداد میں ہے۔اور یہ احمد الباھلی بالا تفاق ضعیف بلکہ متروک اور وضاع ہے۔
Flag Counter