Maktaba Wahhabi

42 - 413
یہ روایت امام ابو عوانہ رحمۃ اللہ علیہ کی ’’زیادات‘‘ میں سے ہے گویا صحیح مسلم پر مستخرج سے کوئی تعلق نہیں۔ اور حاشیہ میں حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ سے لسان المیزان [1] کے حوالے سے یہ وضاحت بھی لکھی کہ اس کا راوی عامر بن سعد ہے۔ ((وقال البخاری فی إسنادہ نظر وذکرہ ابن حبان فی الثقات فقال: یروی عن جدہ حدیثاً منکراً فی المطولات و أورد الحدیث المذکور أبو عوانہ فی صحیحہ من طریقہ))[2] ’’امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے ا س کی سند میں نظر ہے اور ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے ثقات میں ذکر کر کے کہا ہے وہ اپنے دادا سے مطولات میں منکر حدیث روایت کرتا ہے اور یہ حدیث ابو عوانہ نے اسی کی سند سے اپنی صحیح میں ذکر کی ہے۔‘‘ افسوس ہے کہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس وضاحت کے باوجود یہ حدیث صرف اس لیے صحیح ہے کہ وہ ابو عوانہ میں ہے۔ مزید عرض ہے۔امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے الثقات[3] میں اس حدیث کو منکر ہی نہیں کہا بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ ((لایعجبنی ذکرہ)) کہ مجھے اس کا ثقات میں ذکر کرنا اچھا نہیں لگا۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عامر بن خارجۃ ان کے نزدیک ثقہ ہے۔ یادرہے کہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس راوی کا ذکر میزان[4] میں کیا ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ اس کی سند میں نظر ہے پھر امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ کی ضعفاء سے وہی روایت نقل کر کے اس کی نکارت کی طرف اشارہ کیا ہے،امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کے بارے میں ’’اسناد منکر‘‘ کہا ہے۔[5] جسے صحیح بنانے کی مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کو بڑی فکر ہے۔ گویا امام بخاری ،امام عقیلی ،امام ابو حاتم، ابنِ حبان، حافظ ذہبی اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہم تو اسے ضعیف ومنکر کہیں،[6] مگر مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ بس اس لیے صحیح یا حسن ہے کہ یہ
Flag Counter