Maktaba Wahhabi

40 - 413
بعد أن یکون صحیحاً عندہ، وقد نقل فی خطبۃ کنز العمال من الإمام الحافظ السیوطی مامحصلہ أن جمیع مافی صحیح أبی عوانۃ صحیح وغایتہ أن یکون الحدیث مختلفاً فی صحتہ لاغیر، فقد علمت غیر مرۃ أن مثلہ حسن)) [1] ’’امام ابو عوانہ رحمۃ اللہ علیہ اس فن کے امام ہیں انھوں نے اسے اسی لیے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے کہ وہ ان کے نزدیک صحیح ہے اور کنز العمال کے خطبہ میں امام حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صحیح ابو عوانہ کی تمام روایات صحیح ہیں۔ زیادہ سے زیادہ صرف یہ ہے کہ حدیث مختلف فیہ ہو گی اور تمہیں بار ہا معلوم ہو چکا ہے کہ ایسی مختلف فیہ روایت حسن ہوتی ہے۔‘‘ یہی اصول مولانا موصوف نے دیگر مقامات پر بھی بیان کیا ہے بلاشبہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ سے کنز العمال میں یہ بات منقول ہے کہ ابو عوانہ کی تمام روایات صحیح ہیں۔ جبکہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ہی نے تدریب الراوی میں المستخرجات کے بارے میں حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ المستخرجات کی زیادات تبھی صحیح ہیں جب صاحب مستخرج اور اصل راوی کے مابین بھی سند صحیح ہو کیونکہ صاحب المستخرج صحت کا التزام نہیں کرتے، ان کے الفاظ ہیں۔ ((لأن المستخرج لم یلتزم الصحۃ فی ذلک )) [2] لہٰذا جب خودعلامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بھی یہ حقیقت مسلم ہے تو ابو عوانہ کی تمام ترروایات صحیح کیونکر قرار پائیں؟ بلکہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تو صاف طور پر لکھا ہے کہ ((أن کتاب أبی عوانۃ وإن سماہ بعضھم مستخرجاً علی مسلم فإن لہ فیہ أحادیث کثیرۃ مستقلۃ فی أثناء الأبواب[3] ۔۔۔۔ ویوجدفیھا
Flag Counter