Maktaba Wahhabi

398 - 413
’’پس یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ بلکہ یہی سند جلد چہارم میں ذکر کر کے بھی فرمایا: ((فالحدیث حسن)) [1] حالانکہ دونوں اسانید میں علی بن زید مشترک ہے۔ مولانا صاحب اپنے ’’مختلف فیہ ‘‘کے اصول میں اسے حسن الحدیث قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ اعلاء السنن[2] میں ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ اول الذکر مقام پر جو فرمایا ہے: ’وبا لجملۃ فھو حدیث ضعیف‘ وہ بھی تو اسی علی بن زید ہی سے مروی ہے۔ پہلے وہ ضعیف پھر حسن کیسے؟ یہاں یہ بات بھی پیشِ نگاہ رہے کہ مولانا صاحب نے لسان المیزان کے حوالے سے علامہ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ سے یہ تو نقل کیا ہے کہ یہ حدیث موضوع نہیں،مگر اسی لسان میں ان سے یہ بھی منقول ہے۔ ((لھذا الحدیث طرق لیس فیھا مایقوم بہ حجۃ)) [3] اس کے جس قدر طرق ہیں ان میں کوئی بھی استدلال کے قابل نہیں، اب یہ کونسا انصاف ہے کہ علامہ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ کا ادھورا موقف نقل کیا جائے، اس سے اختلاف ہے تو اس کا اہلِ علم کو حق ہے لیکن یوں تو نہیں کہ سرے سے اسے نظر انداز ہی کر دیا جائے۔یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ علامہ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ نے اسی ثانی الذکر روایت کے بارے میں فرمایا ہے: ((ھذا اسناد قوی الا ان الحدیث منکر قالہ ابو حاتم الرازی وقال الدارقطنی غیر ثابت وقال ابن عبد البر اسانیدہ واھیۃ)) [4] ’’اس کی سند قوی ہے،مگر ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا یہ ثابت نہیں اور ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اس کی اسانید کمزور ہیں۔‘‘
Flag Counter