Maktaba Wahhabi

391 - 413
((لم یثبت کونھن من أھل الإجتہاد، فلوفرض فعلھن من حیث الدین أیضاً لما کان حجۃ لہذہ العلۃ فبقی المسئلۃ قیاسیۃ ویکون فتوی الفقہاء أھل الإجتہاد فیہ حجۃ فافھم کذاقال الشیخ سلمہ اللّٰه تعالیٰ))[1] ’’یہ ثابت نہیں کہ وہ صحابیات اہلِ اجتہاد میں سے ہیں ،اگر بالفرض کہا جائے کہ انھوں نے دین ہونے کے ناطے ایسا کیا تھا تب بھی اس علت(عدم اجتہاد) کی بنا پر ان کا فعل حجت نہیں۔ لہٰذا یہ مسئلہ قیاسی رہا(نص کانہ رہا) تو اہلِ اجتہاد فقہاء کا فتوی حجت ہے۔ اسے خوب سمجھ لو جیسا کہ شیخ سلمہ اللہ نے فرمایا ہے۔‘‘ لیجئے جناب! فقہائے احناف تو ٹھہرے مجتہد اور مسئلہ قیاسی ہونے کی بنا پر ان کے اجتہاد پر فتوی دلیل پر مبنی ہوا اور حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابیات سب کی سب غیر مجتہد قرار پائیں اور ان کے عمل پر فتوی درست نہ ہوا۔ سبحان اللہ حالانکہ ابوداود مع العون[2] میں ہے کہ امام محمد بن سیرین جیسے محدث اور فقیہ نے میت کو غسل دینے کا طریقہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے سیکھا تھا۔ ’کان یأخذ الغسل عن أم عطیۃ‘ بلکہ علامہ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: ((کان جماعۃ من الصحابۃ وعلماء التابعین بالبصرۃ یأخذون عنھا غسل المیت)) [3] ’’صحابہ کرام کی جماعت اور بصرہ کے علمائے تابعین ان سے غسلِ میت کا طریقہ سیکھتے تھے۔‘‘ اور ان کے اسی عمل پر امام شافعی ، امام احمد ،امام اسحاق، امام ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے اپنے فتوی کی بنیاد رکھی ہے،مگر افسوس کہ تھانہ بھون کے فقہاء کو وہ غیر فقیہ نظر آتی ہیں۔
Flag Counter