Maktaba Wahhabi

379 - 413
حالانکہ ایوب کو علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے متروک کہا۔ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں: ’ترکوہ‘محدثین نے اسے ترک کر دیا ہے۔[1] امام ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ کی جرح منکر الحدیث کے علاوہ حافظ ازدی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی متروک کہا ہے۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی مناکیر میں سے ایک منکر حدیث ’یحییٰ بن عبد اللّٰه ثنا ایوب‘ کی سند سے بحوالہ ابن عساکر ذکر کی اور فرمایا: ’ویحییٰ ضعیف لکنہ لایحتمل ھذا‘ کہ اس میں یحییٰ ضعیف ہے،مگر وہ اس کا محتمل نہیں۔[2] یعنی اس میں نکارت ایوب بن نھیک کی وجہ سے ہے۔ائمہ جارحین کی جرح کے بعد تنہا امام ابنِ حبان کے قول کی بنیاد پر اس حدیث کو حسن قرار دینا قطعاً درست نہیں۔بالخصوص جب کہ وہ ’’الثقات‘‘ میں ذکر کرنے کے ساتھ ’یخطیٔ‘ بھی کہیں کیا ایسے راوی کی حدیث الصحیح کی حدیث کے مقابلے میں خطأ پر مبنی نہیں؟ اعدلوا ھو اقرب للتقویٰ ۔ ایوب بن نھیک کے علاوہ اس کا شاگرد یحییٰ بن عبد اللہ البابلتی بھی ضعیف ہے۔ یہ روایت المعجم الکبیر[3] میں اسی سند سے منقول ہے۔ اور یحییٰ البابلتی کے بارے میں امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: ’ساقط الاحتجاج فیما انفردبہ‘ جس میں وہ منفرد ہو اس سے استدلال ساقط ہے۔ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے اس کی حدیث میں ضعف واضح ہے۔ یہی بزرگ ہیں جو فرماتے تھے کہ میں 166ھ میں امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ سے ملا ہوں۔ حالانکہ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ 157ھ میں فوت ہو گئے تھے۔امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ اس نے امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ نہیں سنا۔[4] سماع کے دعویٰ کی حقیقت کے بعد یحییٰ بابلتی کی پوزیشن کمزور تر ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ’’واہ‘‘ قرار دیا۔[5] اور دیوان الضعفاء[6] میں ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ذکر کیا کہ اس کی حدیث کا ضعف ظاہر ہے۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی
Flag Counter