Maktaba Wahhabi

377 - 413
’’میں کہتا ہوں وہ جریر عن عطاء کی روایت سے ہے اور جریر نے عطاء سے اختلاط کے بعد سماع کیا ہے۔‘‘ مولانا عثمانی اگر فتح الباری کے حوالے سے تحسین نقل نہ کرتے تو ہمارے لیے شاید کلام کی گنجائش نہ چھوڑتے، ہم سمجھتے کہ ان کے اصول کے مطابق کلام کی گنجائش نہیں، کیونکہ وہ یہ فرماچکے ہیں کہ ثقہ راوی مختلط سے حالت اختلاط میں روایت نہیں کرتا جیسا کہ اعلاء السنن[1] کے حوالے سے ہم پہلے نقل کر آئے ہیں۔لیکن جب فتح الباری سے انھوں نے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی تحسین نقل کی ہے تو انصاف کا تقاضا ہے بات ادھوری نقل نہ کی جاتی ۔حدیث کے بارے میں فتح الباری سے مکمل کلام نقل کیا جاتا،مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ 2 مولانا عثمانی مرحوم نے ’باب کراھۃ الصلاۃ والکلام إذا خرج الإمام‘ کے تحت اس مسئلہ پر بحث کے دوران میں علامہ ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک کلام بحوالہ فتح الباری نقل کیا ہے۔ جس میں طبرانی کی حدیث ’إذا دخل أحدکم والإمام علی المنبر فلا صلاۃ ولا کلام حتی یفرغ الإمام‘ بھی ذکر ہوئی ہے۔[2] حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جو جواب دیا مولانا عثمانی اس کے بارے میں ’لایشفی العلیل‘ کہہ کر مطمئن ہو گئے۔ اس مسئلہ کی وضاحت یہاں مقصود نہیں ،مگر دیکھنا یہ ہے کہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے جو طبرانی کی اس حدیث پر نقد کیا،جسے مولانا صاحب نے نقل کرنا مناسب نہیں سمجھا کیا وہ بھی ’لایشفی العلیل‘ ہی کے زمرہ میں آتا ہے؟ چنانچہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر جو نقد کیا ہے اس کے الفاظ ہیں: ((والجواب عن حدیث ابن عمر بأنہ ضعیف، فیہ أیوب بن نھیک وھو منکر الحدیث قالہ أبوزرعۃ وأبوحاتم والأحادیث الصحیحۃ لا تعارض بمثلہ )) [3]
Flag Counter