Maktaba Wahhabi

368 - 413
بلکہ متن میں بحوالہ ترمذی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ذکر کرتے ہیں: ’من السنۃ أن یخفی التشہد‘ کہ تشہد آہستہ پڑھنا سنت ہے اور اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: یہ ’’حسن غریب‘‘ ہے اور بحوالہ نصب الرایہ یہ بھی کہ حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔[1] حالانکہ یہ بھی ابن اسحاق معنعن ہی روایت کرتے ہیں اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے اشارہ کے مطابق کہ یہ غریب ہے۔ ابن اسحاق کا تفرد بھی پایا گیا مگر پھر بھی یہ حسن بلکہ بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح۔ اس کی ایک اور تفصیل بھی دیکھئے کہ مولانا صاحب نے ابوداود سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث نقل کی کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر کے بعد نمازپڑھتے اور اس سے منع فرماتے ‘‘پھر علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ عزیزی رحمۃ اللہ علیہ سے اس کا صحیح ہونا بھی نقل کیا اور مولانا شمس الحق ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ پر یہ کہتے ہوئے اعتراض بھی کیا کہ ’’صاحب اعلام نے اس کی تضعیف میں اجتہاد کیا ہے۔ کیا انھیں حیا نہیں آتی کہ وہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ اور عینی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ حنفیہ پر طعن کرتے ہیں کہ وہ مذہب کی تائید میں صحیح احادیث کی تضعیف کرتے ہیں حالانکہ وہ خود جو کرتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ برا ہے ۔فالی اللّٰه المشتکی ‘‘[2] حالانکہ مولانا ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تو یہ فرمایا ہے کہ اس روایت میں ابن اسحاق ہے وہ اگرچہ صحیح قول کے مطابق ثقہ وصدوق ہے لیکن اس کے عنعنہ میں نظر ہے۔[3] اور ابوداود مع العون باب من رخص فیھما إذا کانت الشمس مرتفعۃ[4] میں یہ ابن اسحاق کے عنعنہ سے ہی موجود ہے۔اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے رسالہ ’أسماء من عرف بالتدلیس‘ میں جب ذکر کیا ہے، تو اس کی معنعن کو صحیح کہنا چہ معنی دارد؟اب انصاف شرط ہے کہ جب ابن اسحاق مولانا عثمانی کے ہاں بھی مدلس ہے اور اس کی معنعن روایت ناقابلِ تحسین واستدلال ہے تو یہاں کیا وہ ابن اسحاق کی معنعن روایت کو علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ وعزیزی
Flag Counter