Maktaba Wahhabi

360 - 413
ذکر کی ہے اور اس کے راویوں کے بارے میں فرمایا ہے: ((رجالہ رجال الجماعۃ إلا أن الأولین من مدلسي المرتبۃ الثالثۃ التی اختلف فی الاحتجاج بھم إذا عنعنوا وإبراہیم لم یسمع من عائشۃ فالإسناد منقطع مقارب)) [1] ’’اس کے راوی جماعت کے راوی ہیں،مگر پہلے دو تیسرے مرتبہ کے مدلس ہیں جن کے عنعنہ سے استدلال میں اختلاف ہے اور ابراہیم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا لہٰذا سند منقطع مقارب ہے۔‘‘ حالانکہ نصب الرایہ میں[2] تو ’ہشیم أنا‘ ہے یعنی ہشیم نے سماع کی صراحت کی ہے۔ مولانا صاحب نے ہشیم کے بارے میں یہی بات ایک اور مقام[3] پر بھی کہی ہے حالانکہ علامہ نیموی رحمۃ اللہ علیہ نے تو کہا ہے کہ ہشیم مشہور بالتدلیس ہے جیسا کہ پہلے بھی ہم نقل کر آئے ہیں، مگر مولانا صاحب اپنے اکابر کی بھی بات تسلیم نہیں کرتے، اپنے مقصد کے اصول کی پاس داری انھیں عزیز ہے۔ بالکل یہی معاملہ ابو اسحاق کے عنعنہ کا ہے، ان کے نزدیک تو تدلیس مضر ہی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ ابو اسحاق کی معنعن سند کو بھی صحیح ،حسن کہتے ہیں۔ [4] اس طرح مولانا سنبھلی نے ابو اسحاق کو مختلط کہا تو مولانا صاحب آپے سے باہر ہو گئے اور اسے ادب واحترام کے ہی منافی سمجھا اور فرمایا کہ وہ مختلط نہیں ہے۔ [5] اسی جلد[6] میں مولانا سنبھلی کا ابو اسحاق کے اختلاط پر اعتراض ہے جس کے جواب میں فرماتے ہیں: ’’صاحب جوہر النقی تم ،بلکہ تم جیسے ہزاروں سے رجال واسانید کو زیادہ جانتے ہیں انھوں نے اس کی سند کو علی شرط الجماعۃ صحیح کہا ہے شائد انھوں نے جان لیا ہے کہ
Flag Counter