Maktaba Wahhabi

331 - 413
تاریخ میں تساہل معروف ہے۔ لہٰذا راویوں میں کلام اس قصہ کے لیے ضرر کا باعث نہیں بالخصوص جبکہ آپ معلوم کر آئے ہیں ان میں اختلاف ہے۔‘‘[1] غور فرمایا آپ نے کہ سلیمان پر نامکمل جرح نقل کرنے کے بعد فرمایا گیا کہ یہ ایک قصہ اور تاریخی واقعہ ہے ،اس لیے راویوں پر کلام کچھ مضر نہیں بالخصوص جبکہ وہ ’’مختلف فیہ‘‘ ہے۔ اور ’’مختلف فیہ‘‘ کہہ کر اپنے اصول کی طرف اشارہ کیا جس کی حقیقت ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ ’’مختلف فیہ‘‘ تو ان کے نزدیک حسن راوی ہوتا ہے،مگر یہاں شاذکونی کو احکام میں حسن تسلیم نہیں کرتے۔ تبھی تو فرماتے ہیں: وہ احکام میں حجت نہیں۔ اس اصولی تضاد فکری کے علاوہ یہ بھی دیکھئے کہ کیا یہ محض’’قصہ‘‘ ہے یا اسی کے تناظر میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا اس میں حدیث سے استدلال بھی پایا جاتا ہے؟ انھوں نے تو اپنی پیش کی ہوئی حدیث کی سندکو امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کے استدلال پر ترجیح بھی دی ہے اور اسی بنا پر علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے ، جیسا کہ خود مولانا صاحب نے بھی نقل کیا ہے، فرمایا ہے: ((فرجح أبو حنیفۃ بفقہ الرواۃ کمارجح الأوزاعی بعلوالإسناد وھو المذہب المنصور عندنا)) [2] ’’امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے راویوں کی فقاہت کی وجہ سے ترجیح دی جیسے امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے علو سند کی بنا پر ترجیح دی، اور یہی (فقہ راوی کی ترجیح ) ہمارا منصور مذہب ہے۔‘‘ یہ’’واقعہ‘‘ ایک اصولی مسئلہ میں بھی باعث استدلال بن جائے، اور مسئلہ ترک رفع الیدین پر علامہ سرخسی[3] رحمۃ اللہ علیہ ،علامہ ابن ہمام[4] رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ بنوری[5] رحمۃ اللہ علیہ اور دیگرعلمائے احناف اس سے استدلال کریں،مگر مولانا صاحب نے حکمت عملی یہ بنائی کہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے شاذ کونی مختلف فیہ ہے۔ تاریخ میں وہ حجت ہے البتہ احکام میں نہیں۔ اس لیے اس
Flag Counter