Maktaba Wahhabi

324 - 413
’’حجاج بن ارطاۃ مسلم کا راوی ہے ثقہ مدلس ہے اور ارسال کی طرح ثقہ کی تدلیس ہمارے نزدیک مضر نہیں۔‘‘ یہاں پہلا گھپلا تو مولانا صاحب نے یہ کیا کہ فرما دیا: ’’ حجاج مسلم کا راوی ہے۔‘‘ حالانکہ خود انھوں نے[1] علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ ’روی لہ مسلم مقرونا‘ ’’امام مسلم نے اس سے مقروناً روایت کی ہے۔‘‘ اور وہ روایت صحیح مسلم کتاب الحیض میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ ’اُناولہ الخمرۃ من المسجد‘ جس میں حجاج کے ساتھ ’وابن ابی غنیۃ‘ ہے یہی ایک مقام ہے جہاں امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حجاج سے مقروناً روایت لی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ وہ مسلم کا راوی ہے۔ بہر حال درست نہیں۔ دوسراگھپلا یہ کہ ’’ثقہ کی تدلیس ہمارے نزدیک مضر نہیں۔‘‘ مولانا موصوف کے اس اصول پر ہم پہلے اپنی معروضات عرض کرآئے ہیں۔ یہاں یہ بتلانا مقصود ہے کہ خود مولانا موصوف نے فرمایا ہے: ((الإرسال وفی حکمہ التدلیس عن الضعفاء جرح عند الکل)) [2] ’’ارسال اور اسی کے حکم میں تدلیس ہے اگرضعفاء سے ہو تو تمام کے نزدیک جرح ہے۔‘‘ جب ان کے اس اعتراف میں ضعفاء سے ارسال اور تدلیس کرنے والا تمام کے نزدیک باعثِ جرح ہے ،تو لیجئے حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کی بات پڑھ لیجئے۔ ((حجاج بن أرطاۃ الفقیہ الکوفی المشہور، أخرج لہ مسلم مقروناً وضعفہ النسائی وغیرہ بالتدلیس عن الضعفاء)) الخ[3] ’’حجاج بن ارطاۃ مشہور کوفی فقیہ ہیں،امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے مقروناً اس کی روایت لی
Flag Counter