Maktaba Wahhabi

300 - 413
روایت کرتا ہے اور اسحاق مجہول ہے۔ میں کہتا ہوں جس نے حدیث کو صالح کہا، اس نے اسے پہچان لیا، لہٰذا جس نے نہیں پہچانا صالح کہنے والے کا قول اس پر مقدم ہے۔‘‘ اندازہ کیجئے کہ بکر سے ایک ہی راوی اسحاق روایت کرنے والا ذکر کرتے ہیں اور اسحاق کے بارے میں ابن قطان سے ’ لایعرف‘ بھی نقل کرتے ہیں۔مگر امام ابن السکن نے چونکہ اسے صالح کہا ہے لہٰذا نہ بکر مجہول اورنہ ہی اسحاق بن سالم ۔ مگر درج بالامثال میں تو امام ابن المدینی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے ایاس کی روایت کو صحیح کہا، مگر افسوس وہ پھر بھی مجہول ہے۔ مولانا صاحب کو اپنے اصولوں کی پاسداری تو کرنی چاہے ؟ مگر ؎ تم سے امید وفا ہو گی جسے ہو گی قارئین کرام ! انصاف کیجئے کہ کسی مجہول راوی کی روایت مسلک کے خلاف ہے تو ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کا اسے الثقات میں ذکر کرنا توثیق کا باعث نہیں، بلکہ ان کایہ اصول ہی غلط قرار پاتا ہے۔ لیکن ایسے راوی کی روایت مسلک کے موافق ہو تو ان کی توثیق قابلِ اعتبار ٹھہرے بلکہ ان کے اسی اصول پر ازخود ثقہ ہونے کا حکم لگا دیا جائے۔بتلائیے! خود غرضی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے۔ ؎ انھوں نے خود غرض شکلیں دیکھی نہیں شائد وہ اگر آئینہ دیکھیں گے تو ہم ان کو دکھا دیں گے اسی طرح نافع بن محمود کو بھی امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے ثقات میں ذکر کیا ہے،مگر اس کے باوجود مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اسے ثقہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ فرماتے ہیں: وہ مجہول ہے۔اوراس کے جواب میں ان کا حیلہ جدلی دیکھئے، لکھتے ہیں: ((وأما ابن حبان فانہ وان ذکرہ فی الثقات ولکنہ علل حدیثہ کما
Flag Counter