Maktaba Wahhabi

296 - 413
میں مولانا عثمانی نے راویوں کی توثیق کی ہے۔ [1] بلکہ اسی اصول کی بنا پر خود حضرت عثمانی ایسے راویوں کو ثقہ قرار دیتے ہیں۔جنھیں متقدمین نے مجہول قرار دیا ہوتا ہے۔ مثلاً کتاب الصلاۃ باب موضع النظرفی الصلاۃ میں پہلی روایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے لائے ہیں۔ جس کے بارے میں انھوں نے علامہ المنذری سے نقل کیا ہے کہ ’’اسے ابن ماجہ نے سندحسن سے روایت کیا ہے، مگر موسی بن عبداللہ بن ابی امیۃ المخزومی سے اصحاب ستہ میں سے صرف ابن ماجہ نے روایت لی ہے، اور اس کے بارے میں مجھے جرح وتعدیل مستحضر نہیں،جیسا کہ الترغیب میں ہے۔ مولانا موصوف فرماتے ہیں: کہ تقریب میں ہے کہ وہ مجہول ہے۔ لہٰذا اس کی تحسین شواہد کے اعتبار سے ہے۔‘‘ متن کے علاوہ حاشیہ میں اس کے بارے میں مزیدرقمطراز ہیں۔ ((قلت: ھذا المجھول فی السند ثقۃ علی قاعدۃ ابن حبان المذکور فی تدریب الراوی، وإذا لم یکن فی الراوی جرح ولا تعدیل، وکان کل من شیخہ والراوی عنہ ثقۃ ولم یأت بحدیث منکر، فھو عندہ ثقۃ، قلت: وھذہ الشروط مجتمعۃ فی ھذا السند)) الخ[2] ’’میں کہتا ہوں کہ اس سند میں یہ مجہول ثقہ ہے ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کے قاعدہ کے مطابق جو تدریب الراوی میں مذکور ہے: کہ جب راوی میں جرح وتعدیل نہ ہو، اس کا استاداور شاگرد دونوں ثقہ ہوں، اور حدیث منکر ذکر نہ کرتا ہوتو وہ ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ثقہ ہے۔‘‘میں کہتا ہوں کہ اس سند میں یہ تمام شرطیں مجتمع ہیں۔‘‘ پورے موقف میں کہاں کہاں گھپلا ہے اس سے قطع نظر ہم یہاں صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کے اسی ’’قاعدے‘‘ کی بنا پر مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان راویوں کو بھی ازخود ثقہ بنا دیا ہے، جنھیں مجہول کہا گیا ہے۔ اور جن کا کوئی اتا پتا نہیں ملتا۔
Flag Counter