Maktaba Wahhabi

287 - 413
حدیث سماع کی صراحت کے بغیر قبول نہیں کرتے۔ ان میں بعض نے ان مدلسین کی مطلقاً حدیث کو رد کیا ہے اور بعض نے ان کو قبول کیا ہے۔الخ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کلام ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا: ((وھذا ضعف یحتمل فإن الاختلاف لایضر کما علمت غیر مرۃ)) [1] ’’یہ ضعف محتمل ہے کیونکہ اختلاف مضر نہیں جیسا کہ تم کئی مرتبہ معلوم کر چکے ہو۔‘‘ غور فرمایا آپ نے! کہ مروان بن معاویہ رحمۃ اللہ علیہ کی تدلیس کے دفاع میں اسی اصول ’الاختلاف لایضر‘ کا سہارا لیا گیا اور اس کی بنیاد حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کے طبقہ ثالثہ کے راویوں کی تعریف وتوضیح پر ہے۔ ابوالزبیر محمد بن مسلم بن تدرس رحمۃ اللہ علیہ کی تدلیس کا دفاع بھی اسی اصول پر ابواب صلاۃ المریض، کے پہلے باب کے تحت [2] کیا ہے۔ ہشیم بن بشیر رحمۃ اللہ علیہ کی تدلیس کا دفاع بھی اسی اصول پر کیا گیا ہے۔ [3] جبکہ آمین بالجھر کی روایت میں سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے کہ وہ بسااوقات تدلیس کرتے تھے۔ اور اسی بنا پر ان کے مقابلے میں شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کو ترجیح دی گئی ہے کہ وہ تدلیس نہیں کرتے۔[4] جبکہ سفیان رحمۃ اللہ علیہ بھی دوسرے طبقہ کے مدلس ہیں۔ مسلک کی حمایت میں تیسرے طبقہ کے مدلس کی روایت تو ’’ مختلف فیہ‘‘ کے اصول پر حسن قرار پائے، مگر مسلک کے خلاف روایت میں دوسرے طبقہ کا مدلس راوی ہو تو اس کی روایت ضعیف اور مرجوح قرار پائے۔ بلکہ مولانا عثمانی مرحوم نے تو دوسرے طبقہ کے مدلسین کے بارے میں حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کی رائے لکھنے کے بعد واشگاف الفاظ میں فرمایا ہے: ((فھذا یدل علی قبول تدلیس الثوری وابن عیینۃ عندھم)) [5]
Flag Counter