Maktaba Wahhabi

262 - 413
کذاب، قدری اور رافضی تھا۔ اسمعیل بن عیسیٰ عباسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ مجھے ابراہیم نے کہا تمھارا غلام، ابوبکر وعمر سے بہتر ہے۔ (أعاذ نا اللہ منہ) امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ’متروک الحدیث، لیس بثقۃ لا یکتب حدیثہ ‘ کہا ہے۔ امام یعقوب بن سفیان رحمۃ اللہ علیہ اور امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے متروک کہا اور ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ وہ حدیث میں جھوٹا ہے۔ اسی طرح ابن سعد، ابو احمد الحاکم، ابوداود، البزار، ابراہیم الحربی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم نے بھی اس پر سخت جرح کی ہے۔ ان کلماتِ جرح پر غور کریں کہ یہ کس درجہ کی جرح ہے اور اس کے مقابلے میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی توثیق دیکھیں کیا اس مفصل جرح کے مقابلے میں توثیق معتبر ہے؟ مگر مولانا صاحب کے نزدیک یہ’’ مختلف فیہ‘‘ ہونے کے ناطے’’حسن الحدث‘‘ ہے۔ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے جرح پھر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن الاصبہانی رحمۃ اللہ علیہ کی توثیق ذکر کر کے کہا ہے: والجرح مقدم [1] جرح مقدم ہے۔ مگر مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کا اپنا اصول ہے۔ اگر ’’مختلف فیہ‘‘ کی حدیث حسن ہوتی تو جرح مقدم ہوتی یا وہ متروک قرار دیا جاتا؟جیسا کہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھتے تھے۔ مولانا اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: ((فی سندہ رجلان متکلم فیھما إبراہیم الأسلمی شیخ الشافعی مکشوف الحال وابن عقیل)) [2] ’’اس کی سند میں دو آدمی ہیں ان دونوں میں کلام کیا گیا ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد ابراہیم اسلمی ان کاحال کھلا ہوا ہے اور ابن عقیل‘‘
Flag Counter