Maktaba Wahhabi

239 - 413
قطان رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مجہول کہا ہے۔[1] بلکہ امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث العلل[2] میں ذکر کر کے فرمایا ہے: کہ ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ حدیث ثابت نہیں۔[3] اس پر مزید بحث سے قطع نظر خود حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ ہی سے دریافت کر لیجئے کہ تقریب التہذیب میں ان کے نزدیک’’مقبول‘‘کا کیا درجہ ومرتبہ ہے۔ چنانچہ مقدمۂ تقریب میں فرماتے ہیں: ((السادسۃ: من لیس لہ من الحدیث إلا القلیل ،ولم یثبت فیہ،مایترک حدیثہ من أجلہ وإلیہ الإشارۃ بلفظ مقبول حیث یتابع وإلا فلین الحدیث)) [4] ’’جرح وتعدیل میں رواۃ کا چھٹا طبقہ وہ ہے جس میں راوی کی کم احادیث ہوں اور اس پر ایسی جرح نہ ہو جس سے اس کی حدیث متروک ہو، ایسے راوی کی طرف’’مقبول‘‘ کے لفظ سے اشارہ ہے جب کہ اس کا کوئی متابع ہو ورنہ وہ لین الحدیث ہے۔‘‘ لہٰذا خود حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس توضیح کے بعد ابوثفال کی وہی روایت ’’مقبول‘‘ ہے جس میں اس کی متابعت ثابت ہو۔ اور ظاہر ہے کہ اس کا کوئی متابع نہیں، تو اسے ’’مقبول‘‘ اور اس کی روایت کو حسن کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے؟ اندازہ کیجئے کہ جس حدیث کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ معلول قرار دیں اور اس کے ایک راوی کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ’فی حدیثہ نظر‘ ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ اور ابن القطان رحمۃ اللہ علیہ مجہول کہیں۔ وہ محض حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کے مقبول کہنے سے مختلف فیہ قرار پائے اور حدیث بھی اسی اصول پر حسن ٹھہرے۔ کیا ایسا راوی’’مختلف فیہ‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟ بالخصوص جبکہ خود حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے’’مقبول‘‘ کی وضاحت کر دی ہے کہ وہ تبھی مقبول ہے جب اس کا
Flag Counter