Maktaba Wahhabi

215 - 413
’’اس کی ثقات سے احادیث منکر ہیں، اس سے بقیۃ بن ولید اور یحییٰ الوحاظی روایت کرتے ہیں اور وہ مجہول ہے۔‘‘ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کی اس وضاحت کے بعد علامہ ماردینی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ غلط فہمی دور ہو جاتی ہے کہ یہ ابوبکر العنسی مجہول نہیں اس لیے کہ یحییٰ الوحاظی اور بقیہ اس سے روایت کرتے ہیں۔[1] کیونکہ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے وحاظی اور بقیہ کی ابوبکر العنسی سے روایت لینے کا ذکر کیا ہے اور اسے مجہول بھی کہا ہے۔ اس لیے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس حکم میں منفرد نہیں اور مجہول سے مراد مجہول الحال ہے۔ بلکہ امام ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ’’منکر الحدیث‘‘ کہا ہے۔[2] اور حافظ ذہبی نے ضعیف کہا ہے۔[3] حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب[4] میں ابوبکر العنسی کے بارے میں امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام نقل کر کے فرمایا ہے: میرا خیال ہے کہ وہ ابوبکر بن ابی مریم ہے۔ اسی طرح تقریب التہذیب[5] میں انھوں نے فرمایا: ’مجہول قالہ ابن عدی وأنا أحسب أنہ ابن أبی مریم الذی تقدم‘ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مجہول کہا ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ ابوبکر بن ابی مریم ہے اگر انھوں نے اسے ابوبکر بن ابی مریم تسلیم کیا ہے تو اس کے بارے میں حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ ہے کہ وہ ضعیف ہے اس کے گھر چوری ہو گئی تھی جس کی بنا پر وہ مختلط ہو گیا تھا۔[6] اس لیے یہ روایت بہر نوع ضعیف ہے ابوبکر العنسی مجہول الحال ،منکر الحدیث ہے اور اگر وہ ابن ابی مریم ہے تو وہ ضعیف ومختلط ہے۔ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اگر اس کی سند کو صحیح کہا ہے تو یہ ان کا تساہل ہے کیونکہ وہ اس راوی کو بھی ثقہ سمجھتے ہیں جس سے دوراوی روایت کرتے ہوں۔ اس لیے ان کا اس کی سند کو صحیح کہنا ان کے اسی اصول کے تناظر میں ہو سکتا ہے۔
Flag Counter