Maktaba Wahhabi

191 - 413
یہ روایت بھی طبرانی کبیر کی ہے جس کی سند حسب ذیل ہے۔ ((حدثنا علی بن عبد العزیز ثنا حجاج بن المنھال ثنا حماد بن سلمۃ عن حماد عن ابراہیم ان ابن مسعود کان لایقرأ خلف الامام)) [1] حالانکہ یہ سند خود علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلے کے مطابق ضعیف ہے چنانچہ انھوں نے ایک مقام پر حماد بن ابی سلیمان کے اختلاط کے تناظر میں فرمایا ہے: ((لایقبل من حدیث حماد الا مارواہ عنہ القدماء شعبۃ وسفیان الثوری والدستوائی، ومن عدا ھؤلاء روواعنہ بعد الاختلاط)) [2] ’’حماد کی وہ روایت قبول کی جائے گی جو اس سے اس کے قدماء شاگرد، شعبہ، سفیان ثوری اور ہشام الدستوائی روایت کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر حماد سے اختلاط کے بعد روایت کرتے ہیں۔‘‘ لہٰذا جب اس سند کے بارے میں خود علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فیصلہ دے دیا ہے تو اس کے بعد یہ کہنا کہ ’’ان کا سکوت دلیل ہے کہ اس کے راوی ان کے نزدیک ثقہ ہیں اور حسن درجہ سے کم نہیں‘‘ محض مسلک کی کورانہ تائید کے نتیجہ میں نہیں تو اور کیا ہے؟ مزید یہ کہ تہذیب [3] میں ہے کہ ’حماد بن سلمۃ عندہ عنہ تخلیط کثیر‘ ’’کہ حماد بن سلمۃ کی حماد بن ابی سلیمان کی روایات میں بہت تخلیط پائی جاتی ہے۔‘‘ اس لیے یہ روایت کیونکر حسن قرار دی جا سکتی ہے؟ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ طبرانی مولانا موصوف کی وفات سے عرصہ بعد شائع ہوئی۔ اس لیے اگر انھوں نے علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت سے ان راویوں کوثقہ سمجھا ہے تو اس میں وہ معذور ہیں۔ چلئے ہم یہ عذر بھی تسلیم کرتے ہیں،مگر اتنی بات پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں
Flag Counter