اسی طرح رکوع کے وقت رفع الیدین نہ کرنے کے بارے میں سب سے پہلے ان کا استدلال حضرت براء بن عازب کی حدیث سے ہے جسے انھوں نے یزید بن ابی زیاد، عن ابن ابی لیلیٰ عن براء سے روایت کیا ہے پھر اسی محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلی عن عیسیٰ بن عبد الرحمن عن ابیہ عن البراء اور ابن ابی لیلی عن اخیہ وعن الحکم عن ابن ابی لیلی عن براء سے روایت کیا ہے۔[1] اس روایت سے استدلال کی کیا پوزیشن ہے؟اور خود علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے اصول (کہ راوی کا مروی عنہ کے خلاف عمل روایت کے نسخ کی دلیل ہے )کی روشنی میں بھی یہ روایت کیسی ہے؟ یہ ہمارا موضوع نہیں۔ ہم نے عرض کرنا ہے کہ یہاں ابن ابی لیلی کی روایت سے بھی استدلال ہے۔ حالانکہ وہ تو اسے ضعیف اور سیء الحفظ کہتے ہیں،مگر شائد خاموشی ان کے اصول ہی کے مطابق ہے کہ اہلِ علم پر جرح میرا طور طریقہ نہیں۔
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ’واذا قرأ فأنصتوا‘ کہ جب امام قراء ت کرے تو خاموش رہو۔ ‘‘سے بھی اپنے موقف پر استدلال کیا۔[2] حالانکہ اس میں ابن عجلان مدلس ہے اور روایت معنعن ہے علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے ہی مشکل الآثار[3] میں ابن عجلان کو مدلس کہہ کر اس کی روایت کو معلول قرار دیا ہے،مگر شرح معانی الآثار میں اس کی معنعن روایت سے استدلال کیا جاتا ہے۔ امام دارقطنی ، ابو حاتم ،امام نسائی اور ابن معین رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے بھی اسے ابن عجلان کی تخلیط کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
ہماری ان گزارشات سے واضح ہو جاتا ہے کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے استدلال سے حدیث کے حسن یا قابلِ استدلال ہونے کا اصول بھی مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی ضرورتوں کا نتیجہ ہے ورنہ خود امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس قسم کی کوئی بات ثابت نہیں اور ان کے اسلوب سے بھی اس کی تردید ہوتی ہے۔
|