Maktaba Wahhabi

124 - 413
اس کا ذکر کیا ہے اور اس پر طعن کیا ہے۔[1] عرض ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر طعن یہ کیا ہے کہ وہ ’منکر الحدیث‘ ہے۔ امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے ۔ لیس بشیء کذاب، لیس بثقۃ اور یہ بھی کہا:’یوضع لہ الأحادیث فیحدث بھا‘ ’’اس کے لیے احادیث گھڑی جاتیں اور وہ انہیں بیان کرتا‘‘ امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ ، نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے متروک اور امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:’ضعیف لایعتبربہ‘ اور یہ بھی کہا کہ وہ متروک ہے۔امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے لیس بشیء، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف ذاھب الحدیث، جوزجانی رحمۃ اللہ علیہ ،عمروبن علی رحمۃ اللہ علیہ نے کذاب، علی بن الجنید رحمۃ اللہ علیہ نے متروک ، الساجی رحمۃ اللہ علیہ نے منکر الحدیث اور ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے عامۃ روایتہ غیر محفوظۃ کہا ہے۔الأزدی، ابن شاہین رحمۃ اللہ علیہم نے ضعفاء میں ذکر کیا ہے۔ ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ تلقین کو قبول کرتا اور ثقہ راویوں کے نام سے موضوعات روایت کرتا تھا۔[2] جس سے عطاء بن عجلان کی پوزیشن واضح ہو جاتی ہے کہ وہ محدثین کے نزدیک منکر الحدیث،کذاب ،متروک، لیس بشیء ہے اور اس کی روایات اکثر وبیشتر غیر محفوظ ہیں۔ اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے المغنی[3] اور دیوان الضعفاء[4] میں ’ترکوہ وکذبہ یحیی بن معین‘ کہا ہے کہ وہ متروک ہے اور یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تکذیب کی ہے۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ ہے۔ ’متروک بل أطلق علیہ ابن معین والفلاس وغیرھما الکذب‘ کہ وہ متروک ہے بلکہ ابن معین رحمۃ اللہ علیہ اور فلاس وغیرھمانے اس پر کذب کا اطلاق کیا ہے۔ [5] کیا ایسے راوی کو بس اس بنا پر کہ وہ امام ابوحنیفہ کا استاد ہے ثقہ وصدوق کہا جا سکتا ہے؟ جب کہ انھوں نے یہ تصریح نہیں کی کہ میرے تمام شیوخ ثقہ ہیں، نہ ہی ائمہ جرح وتعدیل میں سے کسی امام نے ان کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی ہے، بلکہ جس کو وہ سب سے بڑا
Flag Counter