Maktaba Wahhabi

73 - 187
کے شاگرد امام ربیع رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ امام البویطی رحمہ اللہ کے ہونٹ ذکر الٰہی سے ہلتے رہتے تھے۔خلق قرآن کے مسئلہ میں حاکم وقت نے انھیں جیل میں ڈال دیا تھا۔جیل ہی میں جمعہ کی اذان سنتے تو غسل کرکے صاف لباس پہن کر جیل کے دروازے پر آجاتے۔داروغہ کہتا: واپس چلے جائیں۔وہ اﷲ تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہتے:’’ اللھم انک تعلم إنی قد أجبت داعیک فمنعونی‘‘ اے اﷲ! آپ جانتے ہیں کہ میں نے آپ کے داعی کی آواز پر لبیک کہا مگر انھوں نے مجھے روک دیا ہے۔(التہذیب ص۴۲۷،۴۲۸ ج ۱۱ وغیرہ) ذکرالٰہی میں استغراق کی یہی کیفیت شیخ ِخراسان امام ابوعبداﷲ احمد بن حرب کی تھی کہ ہروقت ان کے ہونٹ ذکر الٰہی سے ہلتے رہتے۔حجام نے انھیں کہا کہ ذرا رک جائیں تاکہ میں بال کاٹ سکوں۔فرمایا: آپ اپنا کام کریں۔اسی سبب سے بعض دفعہ ان کا ہونٹ زخمی ہو جاتا مگر انھیں اس کا احساس نہ ہوتا۔(السیر ص ۳۳ ج ۱۱) امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد امام عبید بن یعیش رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے کہ خود انھوں نے فرمایا:تیس سال سے رات کو میں نے اپنے ہاتھ سے لقمہ منہ میں نہیں ڈالا۔میں احادیث لکھتا تھا اور میری بہن نوالے بنا بنا کر میرے منہ میں ڈالتی رہتی۔ (السیر ص ۴۵۹ ج ۱۱،تاریخ جرجان ص ۴۱۱) امام سلیم بن ایوب الرازی رحمہ اللہ کے بارے میں ابن عساکر نے ذکر کیا ہے کہ ان کا کوئی وقت ضائع نہیں ہوتا تھا۔ایک بار ان کا قلم لکھتے لکھتے گھس گیا تو انھوں نے قلم ساتھی کو دے دیا کہ وہ اسے درست کر دے اور خود اﷲ کا ذکر کرنے لگے کہ مبادا یہ وقت ضائع ہو جائے۔(تبیین کذب المفتری ص ۲۶۳) یہ اور اسی نوعیت کے دیگر واقعات سے اندازہ کیجیے کہ ہمارے اسلاف کے ہاں وقت کی کیا قدر ومنزلت تھی؟ وقت خا م ما ل کی مانند ہے،جیسے خام لکڑی بڑھئی کے ہاتھ میں،یا خا م لو ہا لوہار کے ہا تھ میں،کا ریگر چا ہے تو اس سے عمدہ چیز تیا ر کر لے،یاا سے ضائع کر دے۔وقت کی قدر کر کے بندہ مو من اپنی دنیا و آخرت سنوارتا ہے،طا لبعلم تر قی کی منا ز ل طے کرتا ہے،مسافر
Flag Counter