Maktaba Wahhabi

475 - 534
بھی اس وقت تک نہ بیچی جائے جب تک کہ وہ بیچنے والے کی ملکیت میں نہ آجائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "لا تبع ما ليس عندك":’’جو چیز تمہارے پاس نہیں اسے مت بیچو‘‘[1]۔بہرحال اگر سائل کی کیفیت یہ ہے کہ وہ ٹکٹ ادھار میں خرید کر پھر انہیں آگے بیچتا ہے تو اس صورت میں مذکورہ منافع کا حقدار وہی ہے کیونکہ جس کمپنی نے اسے ادھار میں بیچا تھا انہوں نے اپنی مرضی سے ٹکٹ کی قیمت کم کی ہے اس سے اگلے خریدار کا تعلق نہیں ہے، اور اگر سائل کی کیفیت یہ ہے کہ وہ ائیر لائن اور خریدار کے درمیان واسطہ بن رہا ہے اور اس کا کمیشن لے رہا ہے تو ٹکٹ کی قیمت کم ہونے کی صورت میں جو پیسے بچ رہے ہیں وہ انہیں خریدار کو واپس کرنے کا پابند ہے۔ واللہ اعلم سوال نمبر 5 : اگر ہم کسی کمپنی کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں اور اس کمپنی کے ملازم ہمارے ساتھ کام کرنے کے عوض رشوت لیتے ہیں اور اگر ہم اپنا ناقص مال سپلائی کرنے کے لئے رشوت دیں ان دونوں کا شرعی حکم بیان کردیں ؟ جواب: اس سوال کی دو صورتیں ہیں : (1)سائل اپنا کام بخوبی انجام دیتا ہے اور کام کا حق ادا کرتا ہے لیکن اگر وہ کمپنی کے ملازمین کو رشوت نہ دے تو اس کا حق مارا جاسکتا ہے اور سائل کے لئے کوئی اور راہ نہیں بچتی تو اس صورت میں اپنا حق بچانے کے لئے اگر سائل مجبوراً کچھ رقم ادا کرتا ہے تو اس کے لئے جائز ہے ، البتہ کمپنی کے ملازمین یا ہر وہ شخص جو اس رشوت خوری میں ملوث ہے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ (2)سائل اپنا کام بخوبی انجام نہیں دیتا ، ناقص مال سپلائی کرتا ہےاور اس کے ساتھ ساتھ کسی حق والے کا حق مارنے کے لئے کمپنی کے ملازمین کو رشوت دیتا ہے تو رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوں گے اور اس صورت میں سائل کی آمدنی بھی حرام شمار ہوگی۔ سوال نمبر 6: ’’دارالحرب کا سود‘‘ اس سے کیا مراد ہے اور اسکا حکم بھی بیان کردیں ؟(حیدر علی ) جواب: دار لحرب سے مراد وہ شہر یا ملک ہے جہاں شرعی احکامات نافذ نہ ہوں ، جہاں حکمران کافر ہوں اور
Flag Counter