Maktaba Wahhabi

463 - 534
ذیل دو تشریحات ہیں : (1) زیادہ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ نوٹ کے پیچھے سونااس لئے رکھا جاتا تھا کہ سونا بطور ’’ آلہ تبادلہ ‘‘ متعارف ہوگیا تھا ، ہر جگہ ، ہر ملک میں اس کی بنیاد پر تجارت ہوسکتی تھی ،اگر یہی مقصد کاغذی نوٹ سے سونے کو واسطہ بنا ئے بغیر حاصل ہو جائے اور وہ بطور آلہ تبادلہ کے متعارف ہوجائے تو سونے کو واسطہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے ،اس رائے کے مطابق کرنسی نوٹ ایک خاص قوت خرید سے عبارت ہے یعنی اس نوٹ سے اتنی قیمت کی اشیاء خریدی جاسکتی ہیں ، اب اس نوٹ کے پیچھے سونے کے بجائے غیر متعین متفرق اشیاء کا مجموعہ ہے۔ (2) دوسری تشریح جو فقہی مزاج کے زیادہ قریب ہے وہ یہ کہ نوٹ کو زَر اصطلاحی اور ثمن عرفی قرار دیا گیا ہے ، یعنی اگرچہ اس کاغذ کی ذاتی قدر و نسبت نہیں لیکن اصطلاحی طور پر اسے ایک مخصوص مالیت کا آلہ تبادلہ قرار دے دیا گیا ہے۔ اب زکوٰۃ کے وجوب اور اس کی ادائیگی کے مسئلہ میں ان کاغذی نوٹوں کا حکم بعینہ سونے چاندی کے حکم کی طرح ہے ، اب جو شخص نصاب کے بقدر ان نوٹوں کا مالک بن جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو جائے گی ،بہرحال اس کی شرعی حیثیت کے تعین پر تحقیق جاری ہے ، ہمارا ذاتی رجحان دوسری تشریح کی طرف ہے۔ واللہ اعلم سوال نمبر 10 :کرنسی نوٹ کا نصاب سونے سے لگایا جائے یا چاندی سے قرآن و حدیث سے جواب دیں؟( نسیم احمد ) جواب :ہمارے ہاں رائج کرنسی نوٹ زرمبادلہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ، ان کی زکوۃ کے متعلق دو مختلف نظریات ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے : (1) کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ کرنسی کے نصاب کیلئے اتنے روپے ہونے چاہئیں ، جن سے ساڑھے سات تولہ سونا خریدا جاسکے ، آج کل سونے کا بھاؤ ساٹھ ہزار روپے تولہ ہے ، اس لئے اگر کسی کے پاس کم از کم چار لاکھ پچاس ہزار روپے ہوں تو اس پر زکوٰۃ لاگو ہوگی ، ان حضرات کا کہنا ہے کہ ہر ملک میں زر مبادلہ کے طور پر سونے کو معیار بنایا جاتا ہے ، یعنی ہر ملک اتنے ہی نوٹ چھاپتا ہے جتنے اس کے پاس
Flag Counter