Maktaba Wahhabi

375 - 534
"لا"، فقال: "تكفونا المئونۃ ونشرككم في الثمرۃ"، قالوا: "سمعنا وأطعنا"[1] ’’نہیں‘‘پھر انصار نے مہاجرین کو مخاطب کر کے کہا آپ باغات میں محنت کریں ہم پیدا وار میں آپ کو شریک کرتے ہیں تو مہاجرین صحابہ نے فرمایا کہ ’’ہمیں منظور ہے‘‘۔ اور یہ معاہدہ انصار اور مہاجرین کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہوا تھااگر جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ اسی مجلس میں انکار کر دیتے بلکہ اس کے بعدجب اسلام غالب آ گیا اور خیبر فتح ہوا توخیبرکی زمینیں اور باغات یہود کو مزارعت کیلئے دئیے گئے ۔ (3) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: "أن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم عامل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع".[2] ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمینیں نصف پیدا وار پر مزارعت کیلئے دیں۔قائلین مزارعت کی سب سے بڑی دلیل یہی رسول اللہ کا فعل ہے اور چونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر تک اور عہد ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما تک یہی معاملہ رہا تا آنکہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے یہود کو جلا وطن کر دیا‘‘۔ امام علاءالدین کاسانی الحنفی اس حدیث کے با رے میں تعلیقاً فر ماتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل کم از کم جواز پر دلالت کرتا ہےاور یہی سیدنا علی،ابن مسعود،ابن عباس،عمربن عبدالعزیز،قاسم،عروۃ، زھری، ابن ابی لیلیٰ اور ابن المسیب وغیرہ کا موقف ہے‘‘۔[3] اس دلیل پر اعتراض میں مانعین کہتے ہیں کہ خیبر کا معاملہ مزارعت کا معاملہ تھا ہی نہیں کیو نکہ خیبر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بزور شمشیر فتح کیا تھا لہٰذا خیبرکے یہود مسلمانوں کے غلام تھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم پیداوار کاجو حصہ وصول کرتے تھے وہ بھی آپکا ہی تھا اور جو یہود کو دیتے تھے وہ بھی آپکا ہی تھا۔[4]اور یہ بھی
Flag Counter