Maktaba Wahhabi

374 - 534
ہیں۔امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’مزارعت صرف نقود کے عوض درست ہے ‘‘جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کافرمان ہے ’’مزارعت مساقاۃ کے ساتھ جائز ہے علیحدہ نہیں‘‘۔[1]جمہور ائمہ مذاہب اربعہ اورائمہ حدیث کے نزدیک مزارعت [بٹائی،مخابرہ]درست ہے،اختلاف بعض صورتوں میں ہے یا اولویت میں۔ اس رائے کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں: (1) قیس بن مسلم نے ابو جعفر سے روایت کی ہے کہ: ترجمہ:’’ مدینہ میں کوئی ایسا مہاجر نہ تھا جو تہائی یا چوتھائی پر کاشت نہ کرتا ہو،علی،سعد بن مالک،عبداللہ بن مسعود،عمر بن عبدالعزیز ، القاسم ،عروۃ،آل ابی بکر،آل عمر،آل علی اور ابن سیرین سب نے مزارعت کی اور عبدالرحمٰن بن اسود فرماتے ہیں کہ میں عبدالرحمٰن بن یزید کے ساتھ مل کر کاشت کاری کرتا تھا،اور عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے اس شرط پر مزارعت کرائی کہ اگر عمربیج دیں تو پیداوار میں آدھا لیں گے اور اگر وہ[کاشتکار]بیج اپنا استعمال کریں تو وہ اتنا لیں گے۔[2] اس اثر سے واضح ہوتا ہے صحابہ کرام کی کثیر تعداد مزارعت کی قائل تھی بلکہ ہجرت کی شروعات سے ہی باجازتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار رضی اللہ عنہم کے ساتھ کاشتکاری کرتے تھے،قاضی شوکانی صحیح کی سابقہ عبارت کے بارے میں فرماتے ہیں :’’ امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ صحابہ اور اہل مدینہ سے کوئی بھی مزارعت کے مخالف نہ تھا‘‘۔[3] صحیح بخاری ہی میں مروی ہے کہ: (2) سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انصار نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ ہمارے باغات ہم میں اور ہمارے مہاجربھائیوں میں تقسیم کر دیجئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter